رنگے ہوے چہرے، لمبوتری ٹوپیاں، بے ہنگم
لباس
کبھی تار پر چلتے ہوے
کبھی ایک جھولے سے دوسرے جھولے پر
منھ سے رنگین کاغذ نکالتے ہوے
کبھی سر کے بل
کبھی خوابوں کے بل
مگر خوابوں کے بل کہاں
خواب تو آدمی دیکھتا ہے
پکاسو کے مسخرے خواب نہیں دیکھتے
وہ تو صرف تماشائیوں کو دیکھ سکتے ہیں
تالیوں کے شور کو سُن سکتے ہیں
پکاسو کے مسخرے روٹی کو سوچ رہے ہیں
مگر نہیں، وہ تو صرف چابک کھا سکتے ہیں
رِنگ ماسٹر ان کا خدا ہے
جب تماشائی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں
مسخرے اپنے خیمے میں واپس آ جاتے ہیں
وہ اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ انھیں نیند
آ جاتی ہے
انھیں خواب دیکھنے کی مہلت نہیں ملتی
رنگے ہوے چہرے اور بے ہنگم لباس کے
پیچھے
ایک آدمی ہے جو رونا چاہتا ہے
لڑنا چاہتا ہے
عورت کے ساتھ سونا چاہتا ہے
زندہ رہنا چاہتا ہے
مرنا چاہتا ہے
مگر رِنگ ماسٹر کے اشارے کے بغیر
وہ مر بھی نہیں سکتے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment