کیا فرماتے ہیں
مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نوشین بی بی کو اس کے خاوند عبد اللہ اپنے سسر سے فون پر بات کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو
طلاق،طلاق ،طلاق دیتا ہوں ۔پندرہ دن بعد یہی بات بزریعہ اسٹام پیپر لکھ کر دی ہے ،اور نوشین بی بی تین بچوں کی ماں
ہے ،پوچھنا یہ ہے کہ کیا نوشین بی بی عبد اللہ کے نکاح سے فارغ ہوئی ہے ؟
المستفتی : محمد اغزن
گاؤں جلو :
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب
حامدا و مصلیا
مذکورہ صورت میں اگر عبد اللہ نے فون پراپنے سُسر
کو یہ الفاظ کہے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو
طلاق،طلاق ،طلاق دیتا ہوں ‘‘ پھر اس کے بود اسٹام پیپرپر یہ الفاظ کہ” من مظہر مسماۃ مذکورہ کو یکمشت طلاق،طلاق،طلاق دیا ہوں “ خود
لکھےہوں یا لکھوا کر اس پر دستخط کیا ہو یا لکھا کسی اور نے ہو اور اس نے پڑھ کریا پڑھوا کر اس پر دستخط کیا ہو تو ان تمام صورتوں میں تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں ۔ لہذا سائل کے سوال اور اسٹام پیپر کے
مطابق عبد اللہ کی بیوی (نوشین بی بی )
پرتین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں اور ان
دونوں کانکاح ختم ہوکرحرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے،جس کےبعدرجوع نہیں ہوسکتا ہے اورنہ حلالہ کےبغیرآپس میں نکاح
ہوسکتاہے،
اور نوشین بی بی اپنی عدّت(طلاق کےبعدسےتین ماہ ماہواریاں گزارنے)کےبعددوسری جگہ نکاح بھی کرسکتی ہیں۔
كما في البقرة:(
230)
وقوله
تعالى {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا
غيره} ۔
و فی الهداية :(2/385)
و في تبيين الحقائق : كتاب الطلاق،(2/194)
قال - رحمه
الله - (ويقع طلاق كل زوج عاقل بالغ ، ولو مكرها
وسكران وأخرس بإشارته حرا أو عبدا۔
ولمافي النتف في الفتاوى للسغدي
(1 / 336):
فاما الطَّلَاق الْحرَّة فَثَلَاث ان اكثرها … فاذا وَقع بَين الرجل وَامْرَأَته الْحرَّة
ثَلَاث تَطْلِيقَات فَلَا تحل لَهُ من بعد حَتَّى تنْكح زوجا غَيره وَلَا تحل لَهُ
بِدُونِ ذَلِك۔
فی رد المحتار،كتاب الطلاق،مطلب في الطلاق بالكتابة،ط:سعيد (3 / 246):
(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة
على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما
يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة
وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه
وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته.
ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن
نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا
تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق
وتلزمها العدة من وقت الكتابة.
وفی شرح
المجلة لخالد الأتاسي،المادة:69،ط:المكتبة الحبيبية كوئٹه (1 /191):
علم من هذا أن الشرط في الكتابة المقبولة التي
هي في حكم الخطاب أن تكون مستبينة و معنونة بأن لم تكن علي الرسم المعتاد ،
فلايعمل بها إلا بالنية أو بالإشهاد عليه الإملاء علي الغير ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط.
واللہ
سبحانہ وتعالیٰ أعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment