واردات
رات پھرا ن کا انتظار رہا
رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
ایک امید باز دید جو تھی
دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا
کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل
کب انھیں سامنے نہیں پایا
رات پھر میں نے ان سے باتیں کی
رات تک میرے پاس تھے گویا
ہونٹ، رخسار ، کا کلیں ، باہیں
ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا
پڑگیاسست رات کا جادو
دیکھتے دیکھتے سماں بدلا
ہولے ہولے سرک گئے تارے
چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا
اور پھر مشرقی جھروکے سے
صبح دم آفتاب نے جھانکا
در پہ باہر کسی نے دستک دی
(ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا )
ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں
اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل
اب کریں انتظار تو کس کا
وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں
پھول سا جسم چاند سا چہرہ
عنبریں زلفیں ، مخملیں باہیں
آج تک جن کا لمس باقی تھا
اب فقط ان کی یاد باقی ہے
لٹ گیا عشق کاسرو ساماں
شہر امید ہو گیا ہے ویراں
اس کی اک روئداد باقی ہے
ایک اجڑا سواد باقی ہے
No comments:
Post a Comment