دشمن کے بھی
دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا
اب اشک حنائی سے
جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کف رنگیں
کا مارا نہ ہوا ہو گا
ٹک گور غریباں
کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں
پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا
بے نالہ و بے
زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا
فردا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدۂ کلی یہ
کوے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو
گا پیدا نہ ہوا ہو گا
اس کہنہ خرابے
میں آبادی نہ کر منعم
یک شہر نہیں یاں
جو صحرا نہ ہوا ہو گا
آنکھوں سے تری
ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا
میں برپا نہ ہوا ہو گا
جز مرتبۂ کل کو
حاصل کرے ہے آخر
یک قطرہ نہ
دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
صد نشتر مژگاں
کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ
ایسا سودا نہ ہوا ہو گا
No comments:
Post a Comment