انتہائی مسحور کن منظر
تحریر: زاہد عمران
کسی نے نئی گاڑی خریدی ہو اور وہ اپنی فیملی کو گاڑی میں بٹھا کر گھمانے نکلے تو وہ اس کے لیے سب سے اچھا منظر ہو سکتا ہے ، کسی کو بہت اچھی نوکری ملی ہو تو پہلی تنخواہ لینا اس کے لیے بہترین منظر ہو سکتا ہے ، کسی کے بیٹے نے امتحانات میں اسکول یا بورڈ میں ٹاپ کیا ہو تو وہ اس کے لیے مسحور کن منظر ہو سکتا ہے ، کسی کو باہر ملک کا ویزا ملنا سحر زدہ کرنے والا منظر ہو سکتا ہے، مگرمیں ان معمولی مناظر کی بات نہیں کر رہا ، میں تو ان مناظر کی بات کر رہا ہوں جو 15 صدیاں پہلے بھی ہمارے اسلاف کے دل خوشیوں اور طمانیت سے بھر دیتے تھے اور اب بھی جب یہ دیکھنے میں آتے ہیں تو خوشی سے آنسو نکل آتے ہیں اور دل اپنے اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی محبت میں سر شار ہو جاتا ہے ۔آئیے تاریخ اسلام کے ایک منظر کی منظر کشی کرتے ہیں ، ہاتھ میں ننگی تلوار لیے عمر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ موجود تھے ، عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک صحابی نے دیکھا کہ عمر تلوار کے ساتھ دروازے کے باہر موجود ہیں ، صحابی نے یہ اطلاع اندر پہنچائی ، یہ بات سنتے ہی حمزہ نے کہا کہ اسے اندر آنے دو ، اگر وہ دوست کی حیثیت سے آیا ہے تو ہم خوش آمدید کہیں گے اور اگر دشمن کی حیثیت سے آیا ہے تو اسے اس کی ہی تلوار سے قتل کریں گے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دروازہ کھول دیں ، عمر اندر آئے اور جب آنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں ایمان لاتا ہوں اللہ تعالیٰ پر ، اس کے نبی پر اور ان تمام تعلیمات پر جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ، یہ مسحور کن منظر دیکھتے ہی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین خوشی سے جھوم اٹھے ، نعرہ تکبیر بلند کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ان کلمات کی دل سے ادائیگی کے بعد سب بڑا دوست بن سکتا ہے ۔ "لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ" میں بہت زیادہ طاقت ہے ، اس کو دل کے یقین کے ساتھ زبان سے ادا کرنے کے بعد کفر کی پچھلی تمام برائیاں ختم ہو جاتی ہیں ، اس میں اتنی قوت ہے کہ ترازو کے مقابل پلڑے کو ہلکا کر کے اوپر اٹھا سکتا ہے ، اس کی ادائیگی کے بعد انسان کا خون ،مال اور عزت محفوظ ہو جاتا ہے ۔ جب کوئی بد قسمت ، خوش قسمت بننے لگتا ہے تو یہی کلمہ ادا کرتا ہے ، پھر اس سے زیادہ مسحور کن منظر کوئی بھی نہیں ہوتا ۔
ذاکر نائک کی انڈیا ، جاپان اور انڈونیشیا کی ویڈیوز دیکھیں ، جن میں وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہمیشہ والی سعادت حاصل کرنے کے لیے کچھ سوالات پوچھتا ہے ۔ سوال یہ ہیں: کیا آپ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں ؟ جواب ہوتا ہے "ہاں" ، کیا آپ محمد ﷺ کو اللہ کا پیغمبر مانتے ہیں؟ ، جواب ہوتا ہے "ہاں"، کیا کوئی آپ کو زبر دستی اسلام قبول کروارہا ہے ؟ جواب ہوتا ہے "نہیں "، کیا اسلام قبول کرنا آپ کی ذاتی خواہش ہے ؟، جواب ہوتا ہے "ہاں" ، اس کے بعد ذاکر نائک کچھ الفاظ کہتا ہے اور وہی الفاظ وہ نیک بخت انسان دہراتا ہے ، وہ الفاظ کلمہ شہادت کے ہوتے ہیں ۔جیسے ہی اسلام قبول کرنے والا شخص کلمہ شہادت کی ادائیگی مکمل کرتا ہے ، تمام موجود افراد فردِ جذبات سے بے قابو ہو کر اس شخص سے لپٹ جاتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینے لگتے ہیں ۔ ایسے نظارے کو دیکھ کر ہمارے جیسے گناہ گار انسان کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑتے ہیں ۔
یوسف اسٹیس غیر ملکی دینی اسکالر جب لوسی نامی خاتون سے اسلام قبول کروارہا تھا ، اس وقت ہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ، لوسی خود بھی زاروقطار رو رہی تھی ، یوسف اسے بتا رہا تھا کہ بہت آسان ہے، قدم اٹھالو ، صرف دو جملے کہنے ہیں ، اللہ ایک ہے ، زیادہ نہیں ہیں ، وہی عبادت کے قابل ہے کیونکہ تمام قوتیں ، طاقتیں اور اختیارات اسی بابرکت ذات کے پاس ہیں ، محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ، جس طرح عیسیٰ ؑ پیغمبر ہیں، جس طرح موسیٰ ؑ پیغمبر ہیں، ابرہیم اور سلیمان علیہ الھم السلام اللہ کے پیغمبر ہیں ، محمدﷺ آخری پیغمبر ہیں ، ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ، یہ تمام باتیں سمجھانے کے بعد یوسف نے ایک ایک لفظ کر کے کلمہ پڑھوایا ، جیسے ہی کلمہ مکمل ہوا ،لوسی ہچکیوں کے ساتھ آنسوبہاتے ہوئے ساتھ کھڑی ہوئی خاتون سے لپٹ گئی ، کیااس سے بھی بڑھ کر کوئی سحرزدہ کرنے والا نظارہ ہو سکتا ہے ؟ بلکل نہیں ۔
بحیثیت مسلمان آپ کو بھی ان مناظر کو دیکھ کر اور سن کر بہت خوشی ہوتی ہوگی ، آپ کا دل بھی باغ باغ ہوتا ہوگا اور آپ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہوں گے اور یقیناً فخر کرنا بھی چاہیے ، کیونکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور سچا دین ہے ، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ میرا عمل کس طرح کا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی حدود کی کس قدر حفاظت کرتا ہوں ؟ میری نمازوں کی حالت کیا ہے ؟ میرے صلہ رحمی کے معاملات کیسے ہیں ؟ کسی بھائی کی برائی کر کے مردہ بھائی کا گوشت نہ کھالوں ، اس معاملہ میں کتنی احتیاط کرتا ہوں ؟ میرے اپنے گھر میں اسلام کے نفاذ کی کیا حالت ہے ؟ اپنی اولاد کے شکم میں حلال لقمے ڈالتا ہوں یا حرام ؟ اگر ان تمام سوالوں کے جواب اللہ تعالیٰ کی رضا پر مبنی ہیں تو پھر ہمیں کسی غیر مسلم کے مسلمان ہونے پر خوش ہونے کا حق حاصل ہے ، باتوں سے زیادہ عمل اثر کرتا ہے ، اگر ہمارے اعمال اس طرح کے نہیں ہیں جس کو کوئی منکر اور دہریہ دیکھ کر متاثر ہو اور اسلام کے قریب آئے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میں اپنی ذاتی بد اعمالیوں کی وجہ سے کسی کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ ہوں۔
تحریر: زاہد عمران
کسی نے نئی گاڑی خریدی ہو اور وہ اپنی فیملی کو گاڑی میں بٹھا کر گھمانے نکلے تو وہ اس کے لیے سب سے اچھا منظر ہو سکتا ہے ، کسی کو بہت اچھی نوکری ملی ہو تو پہلی تنخواہ لینا اس کے لیے بہترین منظر ہو سکتا ہے ، کسی کے بیٹے نے امتحانات میں اسکول یا بورڈ میں ٹاپ کیا ہو تو وہ اس کے لیے مسحور کن منظر ہو سکتا ہے ، کسی کو باہر ملک کا ویزا ملنا سحر زدہ کرنے والا منظر ہو سکتا ہے، مگرمیں ان معمولی مناظر کی بات نہیں کر رہا ، میں تو ان مناظر کی بات کر رہا ہوں جو 15 صدیاں پہلے بھی ہمارے اسلاف کے دل خوشیوں اور طمانیت سے بھر دیتے تھے اور اب بھی جب یہ دیکھنے میں آتے ہیں تو خوشی سے آنسو نکل آتے ہیں اور دل اپنے اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی محبت میں سر شار ہو جاتا ہے ۔آئیے تاریخ اسلام کے ایک منظر کی منظر کشی کرتے ہیں ، ہاتھ میں ننگی تلوار لیے عمر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ موجود تھے ، عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک صحابی نے دیکھا کہ عمر تلوار کے ساتھ دروازے کے باہر موجود ہیں ، صحابی نے یہ اطلاع اندر پہنچائی ، یہ بات سنتے ہی حمزہ نے کہا کہ اسے اندر آنے دو ، اگر وہ دوست کی حیثیت سے آیا ہے تو ہم خوش آمدید کہیں گے اور اگر دشمن کی حیثیت سے آیا ہے تو اسے اس کی ہی تلوار سے قتل کریں گے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دروازہ کھول دیں ، عمر اندر آئے اور جب آنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں ایمان لاتا ہوں اللہ تعالیٰ پر ، اس کے نبی پر اور ان تمام تعلیمات پر جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ، یہ مسحور کن منظر دیکھتے ہی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین خوشی سے جھوم اٹھے ، نعرہ تکبیر بلند کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ان کلمات کی دل سے ادائیگی کے بعد سب بڑا دوست بن سکتا ہے ۔ "لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ" میں بہت زیادہ طاقت ہے ، اس کو دل کے یقین کے ساتھ زبان سے ادا کرنے کے بعد کفر کی پچھلی تمام برائیاں ختم ہو جاتی ہیں ، اس میں اتنی قوت ہے کہ ترازو کے مقابل پلڑے کو ہلکا کر کے اوپر اٹھا سکتا ہے ، اس کی ادائیگی کے بعد انسان کا خون ،مال اور عزت محفوظ ہو جاتا ہے ۔ جب کوئی بد قسمت ، خوش قسمت بننے لگتا ہے تو یہی کلمہ ادا کرتا ہے ، پھر اس سے زیادہ مسحور کن منظر کوئی بھی نہیں ہوتا ۔
ذاکر نائک کی انڈیا ، جاپان اور انڈونیشیا کی ویڈیوز دیکھیں ، جن میں وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہمیشہ والی سعادت حاصل کرنے کے لیے کچھ سوالات پوچھتا ہے ۔ سوال یہ ہیں: کیا آپ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں ؟ جواب ہوتا ہے "ہاں" ، کیا آپ محمد ﷺ کو اللہ کا پیغمبر مانتے ہیں؟ ، جواب ہوتا ہے "ہاں"، کیا کوئی آپ کو زبر دستی اسلام قبول کروارہا ہے ؟ جواب ہوتا ہے "نہیں "، کیا اسلام قبول کرنا آپ کی ذاتی خواہش ہے ؟، جواب ہوتا ہے "ہاں" ، اس کے بعد ذاکر نائک کچھ الفاظ کہتا ہے اور وہی الفاظ وہ نیک بخت انسان دہراتا ہے ، وہ الفاظ کلمہ شہادت کے ہوتے ہیں ۔جیسے ہی اسلام قبول کرنے والا شخص کلمہ شہادت کی ادائیگی مکمل کرتا ہے ، تمام موجود افراد فردِ جذبات سے بے قابو ہو کر اس شخص سے لپٹ جاتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینے لگتے ہیں ۔ ایسے نظارے کو دیکھ کر ہمارے جیسے گناہ گار انسان کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑتے ہیں ۔
یوسف اسٹیس غیر ملکی دینی اسکالر جب لوسی نامی خاتون سے اسلام قبول کروارہا تھا ، اس وقت ہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ، لوسی خود بھی زاروقطار رو رہی تھی ، یوسف اسے بتا رہا تھا کہ بہت آسان ہے، قدم اٹھالو ، صرف دو جملے کہنے ہیں ، اللہ ایک ہے ، زیادہ نہیں ہیں ، وہی عبادت کے قابل ہے کیونکہ تمام قوتیں ، طاقتیں اور اختیارات اسی بابرکت ذات کے پاس ہیں ، محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ، جس طرح عیسیٰ ؑ پیغمبر ہیں، جس طرح موسیٰ ؑ پیغمبر ہیں، ابرہیم اور سلیمان علیہ الھم السلام اللہ کے پیغمبر ہیں ، محمدﷺ آخری پیغمبر ہیں ، ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ، یہ تمام باتیں سمجھانے کے بعد یوسف نے ایک ایک لفظ کر کے کلمہ پڑھوایا ، جیسے ہی کلمہ مکمل ہوا ،لوسی ہچکیوں کے ساتھ آنسوبہاتے ہوئے ساتھ کھڑی ہوئی خاتون سے لپٹ گئی ، کیااس سے بھی بڑھ کر کوئی سحرزدہ کرنے والا نظارہ ہو سکتا ہے ؟ بلکل نہیں ۔
بحیثیت مسلمان آپ کو بھی ان مناظر کو دیکھ کر اور سن کر بہت خوشی ہوتی ہوگی ، آپ کا دل بھی باغ باغ ہوتا ہوگا اور آپ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہوں گے اور یقیناً فخر کرنا بھی چاہیے ، کیونکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور سچا دین ہے ، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ میرا عمل کس طرح کا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی حدود کی کس قدر حفاظت کرتا ہوں ؟ میری نمازوں کی حالت کیا ہے ؟ میرے صلہ رحمی کے معاملات کیسے ہیں ؟ کسی بھائی کی برائی کر کے مردہ بھائی کا گوشت نہ کھالوں ، اس معاملہ میں کتنی احتیاط کرتا ہوں ؟ میرے اپنے گھر میں اسلام کے نفاذ کی کیا حالت ہے ؟ اپنی اولاد کے شکم میں حلال لقمے ڈالتا ہوں یا حرام ؟ اگر ان تمام سوالوں کے جواب اللہ تعالیٰ کی رضا پر مبنی ہیں تو پھر ہمیں کسی غیر مسلم کے مسلمان ہونے پر خوش ہونے کا حق حاصل ہے ، باتوں سے زیادہ عمل اثر کرتا ہے ، اگر ہمارے اعمال اس طرح کے نہیں ہیں جس کو کوئی منکر اور دہریہ دیکھ کر متاثر ہو اور اسلام کے قریب آئے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میں اپنی ذاتی بد اعمالیوں کی وجہ سے کسی کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ ہوں۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیا سب کچھ ہے ، یہاں
ہمیش کرلو ، آخرت کچھ بھی نہیں ، چار دن کی زندگی ہے مزہ سے گزارلو، یہ لوگ اپنے
عقیدہ سے بلکل مخلص ہوتے ہیں اور اسی طرح کی زندگی گزارتے ہیں ، جس طرح کا ان کا
نظریہ ہوتا ہے ، مگر ان کے برعکس مسلمان کہتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے ، امتحان
گاہ ہے ، آخرت دارالجزا ہے ، نیک اعمال اور
بد اعمال ترازو میں تولے جائیں گے ، پھر اگر یہی مسلمان اسی دنیا کو عملاً سب کچھ سمجھ لیں ، اسی کے حصول کے لیے سوچ ، کوشش اور وقت کو وقف کر لیں تو پھر یہ مسلمان اُن دنیا پر ست لوگو ں سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ وہ لوگ کم از کم اپنے نظریہ سے مخلص تو ہیں ، جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ، مگر بد عمل مسلمان نظریہ کچھ رکھتے ہیں اور عمل اس کے مخالف کرتے ہیں ۔
ہر قاری سے گزارش ہے کہ اپنے اعمال پر نظر ثانی کریں کہ میرے اعمال کلمہ پڑھنے کے بعد قائم ہونے والے نظریہ کے مطابق ہیں یا مخالف ؟ اگر مطابق ہیں تو اُن اعمال پر جمے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا مانگتے رہیں ، مگر اعمال دعویٰ کے مخالف ہیں تو فوری طور پر توبہ کر کے اس غفور رحیم ذات کی طرف رجوع کریں جو آپ کی توبہ کا ہر وقت منتظر ہے ، اور اس کے لیے آپ کی توبہ کا منظر انتہائی مسحور کن ہے ، وہ فوری طور پر آپ کی توبہ قبول کرے گا ، اس کے ساتھ بونس کے طور پر آپ کے پچھلے گناہ نیکیوں میں تبدیل کردے گا اور جب آپ آخرت میں اتنی ڈھیرساری نیکیاں حاصل کرنے کے بعد رب العالمین کا دیدار کریں گے تو رب کعبہ کی قسم اس سے زیادہ مسحور کن منظر آب کے لیے کوئی نہیں ہوگا۔
بد اعمال ترازو میں تولے جائیں گے ، پھر اگر یہی مسلمان اسی دنیا کو عملاً سب کچھ سمجھ لیں ، اسی کے حصول کے لیے سوچ ، کوشش اور وقت کو وقف کر لیں تو پھر یہ مسلمان اُن دنیا پر ست لوگو ں سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ وہ لوگ کم از کم اپنے نظریہ سے مخلص تو ہیں ، جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ، مگر بد عمل مسلمان نظریہ کچھ رکھتے ہیں اور عمل اس کے مخالف کرتے ہیں ۔
ہر قاری سے گزارش ہے کہ اپنے اعمال پر نظر ثانی کریں کہ میرے اعمال کلمہ پڑھنے کے بعد قائم ہونے والے نظریہ کے مطابق ہیں یا مخالف ؟ اگر مطابق ہیں تو اُن اعمال پر جمے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا مانگتے رہیں ، مگر اعمال دعویٰ کے مخالف ہیں تو فوری طور پر توبہ کر کے اس غفور رحیم ذات کی طرف رجوع کریں جو آپ کی توبہ کا ہر وقت منتظر ہے ، اور اس کے لیے آپ کی توبہ کا منظر انتہائی مسحور کن ہے ، وہ فوری طور پر آپ کی توبہ قبول کرے گا ، اس کے ساتھ بونس کے طور پر آپ کے پچھلے گناہ نیکیوں میں تبدیل کردے گا اور جب آپ آخرت میں اتنی ڈھیرساری نیکیاں حاصل کرنے کے بعد رب العالمین کا دیدار کریں گے تو رب کعبہ کی قسم اس سے زیادہ مسحور کن منظر آب کے لیے کوئی نہیں ہوگا۔
No comments:
Post a Comment