آج عشاء کی جماعت کے بعد ایک بزرگ فوراً کھڑے
ہوئے اور کوئی اعلان کرنے لگے۔
سب کو یہی لگا کہ کوئی صدقہ/زکوٰۃ/خیرات مانگنے والا ہوگا ہمیشہ کی طرح۔ لیکن ارے!
یہ کیا؟ سب کو مخاطب کر کے بٹھایا لیکن پھر خود ہی رونے لگا اور مسجد سے نکل کر
چلا گیا؟
مجھ سے رہا نا گیا اور اُن کے پیچھے بھاگ چلا، نجانے اتنا تیز کیسے جا رہا تھا کہ وہ بوڑھا اور میں جوان لیکن صرف میں جانتا ہوں کہ کس مشکل سے میں اُن تک پہنچ پایا۔
جب میں پہنچا تو میں نے پوچھا اُن سے کہ آخر وہ روئے کیوں اور بھاگ کیوں آئے وہاں سے؟
ایک مسلمان ہی مسلمان کے کام آتا ہے کیونکہ یہ امت ایک جسم کی مانند ہے۔
انہوں نے جان چھڑانی چاہی لیکن آخرکار میرے بہت اصرار کے بعد اُنہوں نے آنسو پونچھے اور اپنی پوری ہمت مجتمع کر کے کہا کہ
"میں فلاں(مدرسے کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا) مدرسے میں مدرس ہوں، الحمدللہ رب کا بہت شکر ہے تین ہزار (۳۰۰۰) روپے تنخواہ ہے میری، پچھلے ۱۰ ماہ سے میری زوجہ بیمار ہیں اور رب تعالیٰ کسی نا کسی طرح ترتیب بنا دیتا ہے اور علاج چلتا رہتا ہے۔
کل صبح ۸۸ بجے ہم نے پشاور جانے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے۔ لیکن میرے پاس صرف ۲۵۰ روپے ہیں۔ کبھی زندگی میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا،
بس جو بھی ضرورت ہوتی رب تعالیٰ کوئی نا کوئی ترتیب بنا ہی دیتا رہا۔ لیکن آج بہت ہی بےبسی میں نجانے کیسے میں اس مسجد تک پہنچ آیا اور یہاں "چندہ/زکوٰۃ/صدقہ" مانگنا چاہا۔
لیکن بیٹا مجھے پھر شرم آگئی۔ کہ جس اللہ نے آج تک کبھی میرا ساتھ نا چھوڑا اور ہر مشکل،
ہر تکلیف اور ہر آزمائش میں میرا ساتھ دیا اور میرا سہارا بنا، آج میں اسی خالق کے گھر میں کھڑا اسکی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہوں۔ میری غیرت نے گوارہ نہ کیا"
الحمدللہ مولانا صاحب کیلئے ترتیب بن گئی ہے۔
*مگر ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے کہ*
*بیٹا عصری تعلیم کے حصول کیلئے اکیڈمی میں ٹیوشن کیلئے تو خود جائیگا مگر دینی علم حاصل کرنے کیلئے مولوی صاحب کو پڑھانے کیلئے گھر پر بلایا جائیگا۔*
*پھر ٹیوشن والے ماسٹر کو پڑھانے کیلئے صرف ایک مضمون کے ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ روپے تک فیس دیتے ہیں مگر مولوی صاحب کو پورے مہینے کے صرف ۳۰۰۰ روپے۔*
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے؛ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا ایسا عمل مسلمان یا انسان کے شایانِ شان ہے؟
آخر وہ بھی تو انسان ہی ہوتا ہے، گھر بار، بیوی بچے، ان سب کے اخراجات اور ضروریات ہوتی ہیں۔ تو اپنی استطاعت کے مطابق انکی مدد کرلیا کریں، کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آخر وہ ہماری آخرت بنانے کیلئے لگے ہوئے ہیں اور کسی بھی زیادتی پر منہ سے "اُف" تک نہیں نکلتی اُن کے۔
مسلمان وہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کی کسی بھی ضرورت میں انکے ساتھ ایک سگے بھائی کی مانند کھڑا رہے اور بقدر استطاعت انکی مدد کریں، کہ میرے آقا(ص) نے فرمایا "میری امت ایک جسم کی مانند ہے"۔ انسان وہ ہے کہ جس کا کسی بھی معاملے میں کسی کو بھی پرکھنے کا معیار انسانیت ہو، ناکہ اسکا پیشہ، اسکا حسب نسب، اسکی دولت و غربت یا پھر اسکی امیری یا فقیری۔ جو اکیڈمی اور مدرسے دونوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ جو ٹیوشن دینے والے اور درس دینے والے دونوں کے دکھ درد، خوشی غمی کا خیال کرتے ہوئے دونوں کیساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اور زندہ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا ضمیر زندہ، جو حق اور سچ سننے اور برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو، جو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اسے سدھارنے کا عزم کریں۔
مجھ سے رہا نا گیا اور اُن کے پیچھے بھاگ چلا، نجانے اتنا تیز کیسے جا رہا تھا کہ وہ بوڑھا اور میں جوان لیکن صرف میں جانتا ہوں کہ کس مشکل سے میں اُن تک پہنچ پایا۔
جب میں پہنچا تو میں نے پوچھا اُن سے کہ آخر وہ روئے کیوں اور بھاگ کیوں آئے وہاں سے؟
ایک مسلمان ہی مسلمان کے کام آتا ہے کیونکہ یہ امت ایک جسم کی مانند ہے۔
انہوں نے جان چھڑانی چاہی لیکن آخرکار میرے بہت اصرار کے بعد اُنہوں نے آنسو پونچھے اور اپنی پوری ہمت مجتمع کر کے کہا کہ
"میں فلاں(مدرسے کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا) مدرسے میں مدرس ہوں، الحمدللہ رب کا بہت شکر ہے تین ہزار (۳۰۰۰) روپے تنخواہ ہے میری، پچھلے ۱۰ ماہ سے میری زوجہ بیمار ہیں اور رب تعالیٰ کسی نا کسی طرح ترتیب بنا دیتا ہے اور علاج چلتا رہتا ہے۔
کل صبح ۸۸ بجے ہم نے پشاور جانے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے۔ لیکن میرے پاس صرف ۲۵۰ روپے ہیں۔ کبھی زندگی میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا،
بس جو بھی ضرورت ہوتی رب تعالیٰ کوئی نا کوئی ترتیب بنا ہی دیتا رہا۔ لیکن آج بہت ہی بےبسی میں نجانے کیسے میں اس مسجد تک پہنچ آیا اور یہاں "چندہ/زکوٰۃ/صدقہ" مانگنا چاہا۔
لیکن بیٹا مجھے پھر شرم آگئی۔ کہ جس اللہ نے آج تک کبھی میرا ساتھ نا چھوڑا اور ہر مشکل،
ہر تکلیف اور ہر آزمائش میں میرا ساتھ دیا اور میرا سہارا بنا، آج میں اسی خالق کے گھر میں کھڑا اسکی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہوں۔ میری غیرت نے گوارہ نہ کیا"
الحمدللہ مولانا صاحب کیلئے ترتیب بن گئی ہے۔
*مگر ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے کہ*
*بیٹا عصری تعلیم کے حصول کیلئے اکیڈمی میں ٹیوشن کیلئے تو خود جائیگا مگر دینی علم حاصل کرنے کیلئے مولوی صاحب کو پڑھانے کیلئے گھر پر بلایا جائیگا۔*
*پھر ٹیوشن والے ماسٹر کو پڑھانے کیلئے صرف ایک مضمون کے ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ روپے تک فیس دیتے ہیں مگر مولوی صاحب کو پورے مہینے کے صرف ۳۰۰۰ روپے۔*
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے؛ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا ایسا عمل مسلمان یا انسان کے شایانِ شان ہے؟
آخر وہ بھی تو انسان ہی ہوتا ہے، گھر بار، بیوی بچے، ان سب کے اخراجات اور ضروریات ہوتی ہیں۔ تو اپنی استطاعت کے مطابق انکی مدد کرلیا کریں، کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آخر وہ ہماری آخرت بنانے کیلئے لگے ہوئے ہیں اور کسی بھی زیادتی پر منہ سے "اُف" تک نہیں نکلتی اُن کے۔
مسلمان وہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کی کسی بھی ضرورت میں انکے ساتھ ایک سگے بھائی کی مانند کھڑا رہے اور بقدر استطاعت انکی مدد کریں، کہ میرے آقا(ص) نے فرمایا "میری امت ایک جسم کی مانند ہے"۔ انسان وہ ہے کہ جس کا کسی بھی معاملے میں کسی کو بھی پرکھنے کا معیار انسانیت ہو، ناکہ اسکا پیشہ، اسکا حسب نسب، اسکی دولت و غربت یا پھر اسکی امیری یا فقیری۔ جو اکیڈمی اور مدرسے دونوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ جو ٹیوشن دینے والے اور درس دینے والے دونوں کے دکھ درد، خوشی غمی کا خیال کرتے ہوئے دونوں کیساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اور زندہ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا ضمیر زندہ، جو حق اور سچ سننے اور برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو، جو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اسے سدھارنے کا عزم کریں۔
*اُمید ہے کہ جو ساتھی بھی یہ تحریر پڑھیں گے وہ
اپنی مسجد کے امام اور مدارس کے مدرسین کا حال پوچھنے کی زحمت ضرور کرینگے،*
اور اُنکی خاطرخواہ مدد بھی فرمائینگے, انکے دکھ درد میں شریک بھی ہونگے۔
یاد رکھیں جو قوم اساتذہ (دینی/دنیاوی علوم کے) کی قدر نا کرے، وہ قوم دنیا میں اپنی عزت اور وقار کھو دیتی ہے اور دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے۔
خدارا اس مظلوم طبقے پہ رحم کریں۔ ان کا خیال رکھیں۔ یہ اللہ والے صرف اللہ سے ہی مانگتے ہیں مگر بطور مسلمان و انسان ہمارا بھی فرض ہے کہ انکا خیال رکھیں،
انکی عزت کریں اور انکی قدر میں کمی نا ہو۔
*اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔*
اور اُنکی خاطرخواہ مدد بھی فرمائینگے, انکے دکھ درد میں شریک بھی ہونگے۔
یاد رکھیں جو قوم اساتذہ (دینی/دنیاوی علوم کے) کی قدر نا کرے، وہ قوم دنیا میں اپنی عزت اور وقار کھو دیتی ہے اور دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے۔
خدارا اس مظلوم طبقے پہ رحم کریں۔ ان کا خیال رکھیں۔ یہ اللہ والے صرف اللہ سے ہی مانگتے ہیں مگر بطور مسلمان و انسان ہمارا بھی فرض ہے کہ انکا خیال رکھیں،
انکی عزت کریں اور انکی قدر میں کمی نا ہو۔
*اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔*
_تحریر: اسد یوسفزئی_
No comments:
Post a Comment