بولو
راجندر سنگھ بیدی
’’بولو‘‘ انسپکٹر گپتے نے عاجز ہو کر کہا۔
اس کی آواز اب باز گشت ہو کر رہ گئی تھی، بلکہ ٹھیٹ رلائی۔ جب اس نے ملزم
سے پوچھا ’’ک،کون تھا اس قتل کے پیچھے؟‘‘
ملزم ونائی (ونائیک) بدستور خاموش تھا۔
گپتے اور اس کے ساتھی اجگاؤ نکر وغیرہ نے ونائی پر تیسری ڈگری کے سب گُر
استعمال کیے تھے، اور اب وہ ڈر گئے تھے کہ کہیں مار کے نشان ملزم کے بدن پر رہ
گئے، تو وہ خود دھر لیے جائیں گے۔ ریمانڈ کے چودہ دنوں میں سے صرف تین دن باقی
تھے، جب کہ اُنھیں ونائی کو چارج شیٹ کے ساتھ میٹروپالیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش
کرنا تھا، جو خود شکل ہی سے قاتل معلوم ہوتا تھا۔ قتل کے پیچھے سازش کا ثبوت فراہم
کرنے کے سلسلے میں گپتے اور اجگاؤنکر کی ہر تفتیش اندھی کالی راہوں سے ٹکرا کر خاک
و خون اُڑاتی، روتی ، چلاتی، ونائی ہی پر لَوٹ لوٹ آتی تھی۔
پیلا چوکی کا یہ پولس اسٹیشن راجدھانی کے معمار لیوفٹسن نے نہیں، کسی مقامی
ہوَنّق نے بنایا تھا اور اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کہیں ہوا کا رُخ حوالات کی
طرف نہ ہو۔ فضا میں رطوبت اس کی سیلن کا باعث ہے۔ پھر اور باتیں—تادیب، تھرڈ ڈگری
وغیرہ۔ اب تک ان دیواروں پر ہیبت کے نقشے بن چکے تھے۔ انسان کے اندر کا ڈر باہر آ
کر دیواروں پر مصوّر ہو گیا تھا۔ ان تجریدی تصویروں کے سامنے چینی، جاپانی ڈریگن،
تبتّی مہاکال، افریقی بیہولا وغیرہ کچھ بھی نہ تھے۔ چھت پر جو شکلیں بنی ہوئی تھیں،
انھیں دیکھ کر تو کوئی معصوم سے معصوم بھی چِلاّ اٹھتا—
’’گلّو کو میں نے مارا ہے، حسن توبہ کا قتل میں نے کیا ہے۔ توبہ‘‘…
کرسی جس پر گپتے بیٹھا ہوا تھا، اس کا ایک بازو غائب تھا اور جہاں اجگاؤنکر
براجمان تھے، اس کے دونوں… وہ دونوں بازو، دایاں اور بایاں، یا تو ونائی پر
استعمال ہوئے تھے اور یا پھر ملکی سیاست میں حصہ لینے چلے گئے تھے۔ اوپر ہزار واٹ
کا ہنڈہ اور ایسی کچھ اور چیزیں جمہور کی طرح نَو تھیں۔
حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے حبس باہر جھانک رہا تھا، جہاں ہال میں ڈیوٹی
آفیسر تین چار غنڈوں کا بیان لے رہا تھا۔ وہ عادی مجرم ایک عجیب قسم کی بے نیازی
سے بیٹھے پورے انسانی جُرم سے منکر ہو رہے تھے۔ گویا وارداتیں انھوں نے نہیں،
ہمزادوں نے کی ہیں۔ ایک تو بار بار اپنا ہاتھ ران پر مارتا تھا، جیسے پہلوان لوگ
اکھاڑے میں اترنے سے پہلے چیلنج کے انداز میں مارتے ہیں۔ کوئی ننگا ہو اور اپنی
برہنگی کا احساس رکھے تو ہر آتا جاتا اسے دیکھتا ہے، لیکن اگر وہ اپنی اس صورت پر
شرمائے نہ لجائے، اُلٹا ڈھٹائی سے دوسروں کو دیکھتا جائے تو سب کی نظر نیچی ہو جاتی
ہے۔ کانسٹبل ، میٹروپالیٹن بمبئی کے نیلے بھوت، ہتھکڑیوں کے پس منظر میں بیکار،
صرف حکم کے منتظر تھے۔ ان کا بس چلتا تو ہر شہری کے ہاتھوں میں وہ لوہے کا زیور
پہنا دیتے۔ محرّر کا قلم جسے ہر وقت خارش رہتی تھی، دوات میں ڈوب رہا تھا اور وہ
خود بے کار بیٹھا جماہیاں لے رہا تھا اور ایف، آئی، آر کا رجسٹر ان سب لوگوں کے
کرم خوردہ مسوڑھوں اور جبڑوں کی طرح سے کھُلا سامنے میز پر پڑا تھا۔
باہر بارش ہو رہی تھی۔ بے کار کی کِن مِن کِن مِن……
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ بغیر کسی وجہ، کسی سازش کے ونائی ایک خوبصورت
نوجوان عورت کا قتل کر دے؟ ایشے (یشو وہا) کے گلے میں منگل سُوتر، ناک میں پھُلّی،
بانہوں میں چوڑیاں جوں کی توں موجود تھیں۔ کارونر کی رپورٹ میں جبر تو ایک طرف کسی
جھپٹ کا بھی اندراج نہ تھا۔ کوئی نئی یا پُرانی دشمنی بھی ثابت نہ ہو سکتی تھی، کیونکہ
ایشے وڈالہ کے نمک والے، بیرک نما کوارٹروں میں اپنے شوہر نارائن اور دو بچوں کے
ساتھ رہتی تھی، جب کہ ونائی اس سے فرسنگ پر ے— ورلی کے کولی واڑے میں، جہاں بومِل
مچھلی کی بو چوبیس گھنٹے انسان کے جسم و ذہن کا احاطہ کیے، اس کے پور پور میں بس
جاتی… ونائی کی محبوبہ شکود ڈالے کے پاس رہتی تھی البتہ — انیٹوپ ہِل کے نیچے،
ہاربر برانچ کی ریلوے لائن کے بازو میں، جہاں بے شمار جھونپڑیاں برسات اور تڑاکے
کے میل جول سے جیسے اپنے آپ اُگ آئی تھیں۔ مگر اس کا ایشے سے کیا تعلق؟
ایشے اور اس کا میاں برہمن تھے۔ شکو اور اس کے ماں باپ کولی، جو ڈاکٹر امبیڈکر
کی شہ پر بدھ ہو گئے تھے۔ اس پر بھی نہایت ہی لاپذیر ہندو سماج، انھیں عزت سے
بلانے کی بجائے بدھو کہتا تھا۔ موقع پڑتے ہی ان کی جھونپڑیاں تک جلا ڈالتا۔ انھیں
جسمانی اور روحانی عذاب پہنچاتا۔ گویا بدھ ہو جانے پر بھی یہ لوگ اَچھوت کے اَچھوت
ہی رہے۔ حالاں کہ تاریخ کے دھندلے ادوار میں انہی کولی، ماہی گیر لوگوں کی ایک حسینہ
مگس گندھا نے پانڈوؤں کے باپ سے شادی کی تھی اور آج جن لوگوں کے سامنے ہمیں سر
جھکانا پڑتا ہے، ان کی ماں بنی تھی… پھر نارائن کا رقیب بھی نہ تھا کوئی۔ البتہ
الزام ہی لگانا، قانون کو پدانا ہو، تو ہر آدمی اس مرد کا رقیب ہوتا ہے، جس کی
عورت ایشے ہو!
ایشے معمول کی طرح گنپتی وسرجن کے لیے مرد عورتوں کے ساتھ سیوڑی والے ساگر
کی طرف گئی تھی۔ بھوکے، ننگے لوگ… پیٹ میں پاپڑی نہیں، تن پہ چتھڑا نہیں۔ مگر جا
رہے ہیں۔ ناچ اور گا رہے ہیں، چاہے سوکھا ہو چاہے برسات، وہ خود نہیں، بیوڑہ اُنھیں
گھسیٹے لیے جا رہا تھا شاید۔ اور یا پھر مذہبی جوش، جو بیچ میں جنون ہو ہو اُٹھتا
تھا۔ جب وہ کسی کی بھی بے عزتی کر دیتے۔ اندر کی کسی جلن سے کاروں کے شیشے توڑ دیتے
اور کسی کی مجال نہ تھی انھیں کچھ کہنے کی۔ کیسے کہتے۔ کیونکہ پوری قوم، قومیت تھی
ان کے پیچھے تھی اور شوسینا۔… جیسے محرم میں تعزیہ نکالنے والوں کے پیچھے پوری شیعہ
قوم نہیں ہوتی؟ آٹھ بازوؤں والی دُرگا کے پیچھے بنگالی نہیں ہوتے؟ چاہے وہ گھاس
ہوں یا نکسل باڑی؟ ایسے ہی جیسے بیوڑہ بنانے اور بیچنے والوں کے پیچھے انڈر ورلڈ
ہوتی ہے، مافیا ہوتا ہے، ایک معمولی سے ٹریفک کانسٹبل کے پیچھے پوری سرکار ہوتی
ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ونائی کے پیچھے صرف ونائی ہو؟
ایک، بے آڑ ، غیر مامون جذبے تلے گنپتی وسرجن والے مورتی لے جاتے، ناچتے
گاتے ہوئے جا رہے تھے— گنپتی بابا مُوریا، پڑچے ورشی لَو کر آ۔ یعنی کہ اگلے برس
جلدی آ۔ مگر یہ پرارتھنا تو پچھلے اور اس سے پچھلے برس میں بھی کی تھی ان لوگوں
نے، پھر سمپتی دینے والے گنپتی بابا نے کیا دیا تھا انھیں؟کِس کِس کے گھر بھر دیے
تھے؟ اُلٹا اس کی لمبی سونڈ اور پھیلی ہوئی توند کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے
سب کے حصے کا وہ خود ہی کھا گیا ہے۔ ایرانی ہوٹل والے راشٹر پتی کی سفارش سے ایک
پاو دیتے تھے۔ شکر بازار سے یونہی غائب ہو گئی تھی۔ گھاسلیٹ کے لیے میل میل، ڈیڑھ
ڈیڑھ میل کے کیو لگتے تھے۔ اس کی نایابی کی وجہ سے گھروں میں چولھے جلنے بند ہو
گئے تھے۔ کوئی زمانہ تھا عورت سونے کی کوئی چیز یا اچھی سی ساری دیے جانے پر اپنا
سب کچھ دے بیٹھتی تھی، لیکن اب وہ گھاسلیٹ کے چھوٹے سے ٹِن پر چلی آئی تھی…
گنپتی بابا مُوریا، کے وِرد سے یہ لوگ تھک جاتے تو کسی زٹل قافیے پر چلے
آتے، جو پوری زندگی ہو گیا تھا۔ پاؤڈر والے دُودھ کی بالائی مار گئی! اور پھر ’مار
گئی‘ کی مناسبت سے وہ اس کی بے شمار گندی
گردانیں کرتے ہوئے چلتے۔ بھیگی ہوئی چھوکریوں کے نمایاں پچھواڑوں کی چُٹکیاں لیتے،
اپنے اور ان کے اگاڑے مشتعل کرتے… ایشے بھی ان کے ساتھ تھی۔ اس کا بدن جو ایک ہی
مرد کے مسلسل مماس سے سو گیا تھا، جاگ جاگ اُٹھتا۔ اسے گمان بھی نہ تھا کہ پڑچے
برس تو ایک طرف، پڑچے پل ہی میں ونائی کا رامپوری چاقو اس کے آر پار ہو گا اور یہ
انوکھا مماس اسے کہاں سے کہاں پہنچا دے گا ،اور اس غریب کا اپنا وسرجن پانی کی
بجائے آگ میں ہو گا۔ ساگر میں کا بڑوا نل کہتا ہے، آگ پانی سے بھی بڑی ہے۔ کیا
معلوم؟
بائیس چوبیس کی ہو گی ایشے ۔ یعنی اس عمر کی جس میں کہ ہر عورت اپنے وجود ہی
سے کہتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میں ہوں۔ مغربی گھاٹ کی پیداوار ہونے کی وجہ سے سب
ناریل اور ان میں کا سارا کھوپڑا اس کے بدن کو بنانے میں لگ گیا تھا۔ پھر کیا کیا
گولائیاں، بالائیاں چلی آتی تھیں اس پر۔ اوپر کچھ ولندیزیوں، عربوں کا خون مل گیا
تھا، جو بھارت کے پچھمی ساحل پر تجارت کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کے کارن نہ صرف ایشے
کا رنگ سُرخ و سپید تھا، جلد ریشمیں، بلکہ آنکھیں بھی عرب ساگر کی طرح سے زمردّیں
ہو گئی تھیں۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب نارائن کو اس کی لاش ملی، تو وہ اسے اپنے نمک
والے کوارٹروں میں لے آیا۔ سب تماشائیوں کو ہنکال کر اس نے ایشے کو ایک کمرے میں
بند کر لیا اور قریب ڈیڑھ دو گھنٹے اس کے ساتھ اکیلا رہا۔ جب دروازہ کھلا تو لوگوں
نے دیکھا۔ ایشے دُلھناپے کا کاشٹا لگائے پڑی ہے، اُس کی ناک میں پھُلّی کی بجائے
کھڑا ہے، پانْو کی انگلیوں میں بچھوا …
کتنا پیار کرتا تھا نارائن اس سے۔ شادی کے بعد ایک بار جب ایشے مائیکے گئی
تو کسی نے پوچھا— کَے دن رہ گئے بہو کے آنے میں؟ نارائن نے ترنت جواب دیا — بیس دن
اور اکیس راتیں!
جب نارائن مسکرا بھی نہ رہا تھا—
——اب ایشے کی ارتھی نکلی تو وہ رو بھی نہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں
کے آنسو کہاں چلے گئے تھے، یہ کیا معلوم ۔ ابھی اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سب اڑوس
پڑوس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ اپنے سُرخ کاشٹے، کفن میں ایشے اور بھی گوری چٹی
لگ رہی تھی۔ وہ ایک ایسی نیند سو رہی تھی، جو شبِ زفاف میں دلہن چار چھ بار نکل
جانے کے بعد سوتی ہے۔
ارتھی اُٹھ جانے کے بعد اس کے بچّے — ناتھو اور سبھا بار بار پوچھتے تھے—
’’آئی کُٹے؟ (ماں کہاں ہے؟) اور ایک راشٹر بھاشی جواب دیتا، آئی
تو گئی…ایسی معمولی سی ترکیب وضع کر لینے سے اس کی لسانی شہوت تسکین کو پہنچ جاتی۔
صرف دو دن رہ گئے تھے ریمانڈ میں، جب کہ انسپکٹر گپتے نے ونائی کی تفتیش کا
آخری پتھر مارا۔ ونائی اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اس کے ہونٹ تھوڑا بھنچ کر فوراً ہی
معمول کے ہو گئے۔ ایک ٹھنڈے غصّے میں جانے وہ کیا کچھ پی گیا۔ گرم غصّے میں آنکھیں
لال ہو جاتی ہیں اور شریانوں کی گانٹھیں، ان میں سُرخ دھبّے ، خون کا دباؤ ایکا ایکی
بڑھ جانے سے تنفس گھوڑ چال ہو جاتا ہے۔ نتھنے پھولنے لگتے ہیں،ہونٹوں پہ کف چلی آتی
ہے، بدن کی رگیں اور پٹھے تن جاتے ہیں، کوئی نئے اور ممکن وار اپنے اوپر لینے کے لیے۔
مگر وہ — ونائی، رنگ کا کالا، بدن کا کھردرا ، جات کا کولی، جیسے گوشت پوست سے نہیں،
کسی عقیدے کی فولاد سے بنا تھا۔ جسمانی یا روحانی مار کا اس پر کوئی اثر ہی نہ
تھا۔ اس سارے سلسلے میں یا تو وہ آگے کی بہت سی صدیاں گن گیا تھا اور یا پیچھے کی۔
وہ دلت پنتھروں کے ساتھ فلرٹ کرتا تھا اور کبھی کبھی شیوسینا کے رسالے ’’مارمِک‘‘
میں کسی دوسرے نام سے لکھتا بھی تھا۔ اس وقت وہ تخفیف کے انداز میں کھڑا تھا، جیسے
کوئی بھگت سنگھ دیس کی آزادی کے لیے پھانسی لگنے جا رہا ہو —الٹا اس کی آنکھیں کچھ
اور سپیدی پکڑ گئی تھیں، کفن کی تہوں میں چھپی ہوئی نیلاہٹ اُمڈ آئی تھی، جن میں
ساگر ڈوب رہے تھے، اپنے اندر پوری لوکائی کا وسرجن لیے ہوئے۔ اس کا غصّہ اوپر اور
اوپر، لاشعور کی تہوں میں جا چھپا تھا، جہاں ساری خدائی ملتی ہے اور وہ — غصّہ، کسی
ایک فرد کا ہو کر رہ جانے کی بجائے پورے اجتماع کا ہو جاتا ہے…
باہر آج بھی بارش ہو رہی تھی اور انسان کے نفس، اس کی سائیکی کا بیڑا غرق
کر رہی تھی۔ کہاں تو پورے جولائی اور اگست کے مہینے خالی گئے تھے اور کہاں اب
ستمبر کے آخر میں یوں لگ رہا تھا، جیسے ورن دیوتا بیئر کے کیگ کے کیگ پی کے دنیا
کو اپنی چھوٹی حاجت کا شکار بنارہا ہے۔ خریف کی فصل تباہ ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ
تھی کہ خدا فارسی نہ جاننے کی وجہ سے ربیع اور خریف کے معنی نہ سمجھتا تھا۔ فصلوں
میں اسے کوئی تمیز نہ رہی تھی۔ وہ تھوڑا ہبرو، تھوڑی سنسکرت اور عربی میں شُد بُد
رکھتا تھا اور بس۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسے ایک ہی زبان آتی ہے، جس کا نام ہے— آہ!
جب سرکار کے میٹ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ، خدا کے نمائندے بنے، ایک بلیٹن شائع کر
دیتے۔ خلیج بنگال میں ایک ٹرف، ایک کونڈا پیدا ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ٹائی فون
بن کر اڑیسہ کے بے شمار گانووں کو تباہ کرتا ہوا ذہن کینل کے ضلع کی طرف نکل جائے۔
(جہاں کھاد کا کارخانہ ہے) اور یا پھر مدھیہ پردیش سے مراٹھ واڑ، بمبئی کی طرف چلا
جائے۔ کچھ علاقوں کو تو وہ باڑھ سے برباد کرگیا، اور کینول میں سوکھا بو گیا اور
لوگوں کو اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ گیا کہ ان کے لیے بھوکا مرنا اچھا ہو
گا، یا ڈوب کر جان دینا؟ چاروں طرف ہاؤ ہو کا نقارہ بج رہا تھا— بے زبان ، بے سُر
، بے تال۔
— اور ونائی چپ تھا۔ چُپ، صابر جابر کے سامنے تن جائے تو بڑے
بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ سازش کی تفتیش کے سلسلے میں گپتے اتنا تنگ آ گیا
تھا، کہ اس کا جی چاہتا تھا کہ پیٹی اور پتلون اتار کر ونائی کے سامنے لیٹ جائے…
اسے ریمانڈ کے پہلے چند دن یاد آ رہے تھے، جب اس نے ونائی سے پوچھا تھا—
’’تم نے ایشے کو کیوں مارا؟‘‘
ونائی نے یونہی سا سر ہلا دیا۔ جس کا مطلب تھا، ایسے ہی۔
’’اس لیے کہ وہ اونچی جات والی تھی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’امیر عورت تھی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’خوب صورت اور جوان تھی؟‘‘
’’نہیں، نہیں، نہیں‘‘ ونائی نے قدرے برافروختگی سے کہا۔ ’’شکوُ
اس سے کہیں زیادہ سندر، کہیں زیادہ جوان ہے۔‘‘
’’شکو؟‘‘ گپتے نے اپنی کرسی پر سے اُٹھتے ہوئے کہا ’’وہ کالی
کلوٹی کولی چھوکری ،جو آٹھ آٹھ آنے میں—‘‘
اس سے پہلے کہ گپتے اپنی بات پوری کرتا، ونائی ایک دم اُچھل کر کھڑا ہو گیا
اور بولا۔ ’’باسٹرڈ!… تمھاری بہن سے اس کا ریٹ زیادہ ہے…‘‘
یہ وقت تھا ، جب کہ گپتے نے ونائی کو پہلا اور بھرپور تھپڑ مارا۔ اس کی
انگلیاں اس نوعمر مگر سرکش لڑکے کے گالوں میں کھُب گئیں، وہ ہل نہ سکتا تھا کیونکہ
حولدار اور کانسٹیبل لوگ مضبوطی سے اسے پکڑے ہوئے تھے۔ ونائی پر اس کا کوئی اثر نہ
ہوا، نہ ہی انگلیوں کے نشان آئے؟
گپتے نے اپنے سینیر اجگاؤنکر کی طرف دیکھا۔ ونائی بولتا چلا گیا— ’’دنیا کے
نائینٹی نائن پرسینٹ لوگ اگر ایک ٹکے میں بکتے ہیں، تو تم آدھے میں…وہ سب دلت جاتی
کے ہیں۔رنگ کے کالے، پر صحت والے…‘‘
جبھی گپتے نے کرسی کا بازو کھینچا اور پے درپے ونائی پر برسانا، اسے گالیاں
دینا شروع کر دیں۔ کچھ دیر کے بعد ونائی لڑکھڑایا اور پھر ان سب کے سامنے ڈھیر ہو
گیا اور یوں اس تفتیش کا پہلا سیشن ختم ہوا۔
رات مرہم پٹی ہو جانے کی وجہ سے ونائی ہوش میں آ چکا تھا ۔ پوری رات وہ سیلے
فرش پر پڑا رہا۔ کپڑے پھٹ جانے کی وجہ سے وہ کچھ ڈھکا، کچھ ننگا، مغربی گھاٹ کا
کوڑیالا کوبرا معلوم ہو رہا تھا۔ سامنے فرش پر رات کی دو سوکھی روٹیاں پڑی تھیں جو
اب تک پاپڑ ہو گئی تھیں۔ دال کے کٹورے میں سماروع قسم کی ایک سفید سی جھِلّی چلی
آئی تھی۔ اور جب وہ ختم ہوئے تو ونائی کو کاٹنے لگے۔ چیونٹوں نے جب دیکھا کہ اسے
کاٹنے سے وہ خود ہی مرنے لگے ہیں، تو بھاگ کر چینوٹیالہ میں دبک گئے۔
انسپکٹر لوگ آئے۔ ان کے چہروں کی رگیں اور پٹھے کچھ ارادوں سے تنے ہوئے
تھے۔
’’ونائی‘‘ اجگاؤ نکر نے پکارا۔
ونائی اٹھا، گرا، پھر اٹھا اور اپنا کوبرئی پھن تان کر اجگاؤنکر کو درست
کرنے لگا— ’’ونائیک را ؤ… ونائیک راؤ…‘‘
’’اوکے… اوکے‘‘ اجگاؤ نکر نے اپنے بید کو بغل میں اڑستے ہوئے
کہا— ’’مسٹر ونائیک راؤ…‘‘
"That’s
Right” ونائی نے کہا۔ اس کے چہرے پر اب نفرت کا ایک
احساس تھا، بازو کے ایک جھٹکے سے اس نے گردن پر رات کا لگا ہوا پسینہ اور میل
پونچھا اور اجگاؤ نکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
اجگاؤ نکر نے پوچھا —’تم ہوٹل نیرج کے پروپرائٹر کو جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں‘‘ ونائی نے جواب دیا ’’ہاں ایک بار کھانا کھایا تھا
اُدھر۔‘‘
تم جانتے ہو، جوزف پریرا، اس کا پروپرائٹر ، ٹاؤن کونسلر کُلکڑنی اور وڈالے
کے کچھ بنیٹوں کے ساتھ مل کر کاجو اور فینی بیچتا ہے۔ گو ا سے میرہ منگواتا ہے،
فارن سے سکاچ؟‘‘
’’یہ میں نہیں جانتا—مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس کا دھندا تم
مادر— کو ہفتہ کھلائے بغیر دو دن بھی نہیں چل سکتا…‘‘
اجگاؤ نکر تلملا کر رہ گیا۔ بات سچی مگر یوں دو ٹوک تو کمشنر نے بھی نہیں کی
تھی۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ماتھے پر کا پسینہ پونچھا اور پھر گپتے کی طرف اشارہ کیا
،کیونکہ یہ کیس دراصل اُسی کا بے بی تھا۔ یہ ایسے ہی تھا، جیسے کورٹ میں استغاثہ
جب اپنی جرح ختم کر لیتا ہے، تو وکیل صفائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا ہے — ’’یُور
کیس ‘‘…
گپتے نے کہا ’’راؤ صحیب … آپ کے نالج میں ہے، جوزف پریرا ایشے پر آنکھ
رکھتا تھا؟‘‘
’’آنکھ رکھتا تھا کہ ٹانگ رکھتا تھا… ‘‘ ونائی نے جواب دیا
’’کون، کسے، کتنے دھکے لگاتا ہے… میں کیا اس کا اکاونٹ رکھتا ہوں۔‘‘
’’تمھیں پتا ہے پریرا اور علاقے کے دادا اکرم نے دادر اور پریل
کے کراس روڈ پر، جہاں مہابیر جی کا مندر ہے، ایشے کو چھاتی سے پکڑ لیا تھا؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’پھر شور مچ جانے پر پریرا بھاگ گیا، مگر اکرم پکڑا گیا۔ لوگوں
نے اسے مارا؟‘‘
ونائی نے اس بات پر سر ہلایا اور بولا ’’اس لیے مارا کہ سالوں میں خود ہمت
نہیں تھی چھاتیاں پکڑنے کی۔‘‘
ونائی ہنس رہا تھا۔
’’اس سے پریرا کی بے عزتی ہوئی‘‘ گپتے نے اپنا بیان جاری رکھتے
ہوئے کہا۔ ’’ایشے کا دھندہ چوپٹ ہو گیا۔‘‘
’’تب؟‘‘
گپتے نے آواز کو بلند کیا ’’تب، بدلہ لینے کے لیے اس نے ایک اجیر، ایک
ہائرلنگ رکھا؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’اور وہ — تم تھے … تُم …تُم …‘‘
اس سے پہلے کہ ونائی جواب دیتا۔ اجگاؤ نکر نے گویا چھت ہی پھاڑ دی۔ کَے
روپوں میں فیصلہ ہوا؟… بولو…؟
’’بولو‘‘ گپتے اس کے ساتھ ہی گرجا۔
ونائی خاموش رہا۔ انسان ہمیشہ اس لیے خاموش نہیں رہتا کہ وہ مجرم ہے… وہ
تھک بھی جاتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا، جب آدمی اس قدر بھائیں بھائیں کرتے ہوئے خاموشی کے سامنے نہ
صرف بے بس ہو جاتا ہے، بلکہ کانپنے لگتا ہے۔ نامرادی میں، غصّے میں۔ جبھی دوسری
کرسی کے بازو ونائی پر ٹوٹ ٹوٹ گئے۔ وہ پھر بے ہوش ہو گیا۔ اب وہ مفتوح فاتح تھا۔
اس کی ناک ہی سے نہیں، کان سے بھی خون بہنے لگا تھا۔ جو دماغ سے جریان کی علامت
ہے۔ گپتے اور اجگاؤ نکر دونوں کی چھٹی ہو گئی…
’’ڈھو کے‘‘ گپتے نے گھبرائی ہوئی آواز میں حوالدار سے کہا
’’بھاگو… ناکے پر جاؤ اور برف لاؤ۔‘‘
حوالدار ڈھوکے نے ’’ہو‘‘ کہا اور سیلوٹ کے تکلف میں پڑے بغیر باہر کی طرف
لپکا۔ پیچھے سے گپتے نے تائیدی آواز دی۔
’’پوری سِل لانا۔‘‘
…دو روز بعد تیسرا سیشن ہوا۔ ونائی بچ گیا۔ جب کہ گپتے، اجگاؤ
نکر اور کچھ کانسٹبل مل کر ونائی کے پھسل کر گرنے اور گر کر زخمی ہو کر مر جانے کا
پنچ نامہ تیار کرنے کی فکر میں تھے۔ تیسرے دن ڈاکٹر آئی. آئی . گلاٹی کی مدد سے
انھوں نے ونائی کی زبردستی فیڈنگ کی۔ طاقت کے انجکشن دیے ، تاکہ اسے تندرست بنائیں
اور پھر ماریں۔
یہ دیکھ کر کہ اس وقت اذیت دینا ٹھیک نہیں ہے، گپتے اور اجگاؤنکر نے پینترا
بدلا۔ ونائی کے پاس آتے ہوئے اجگاؤنکر نے کہا۔
’’وِنے…‘‘
ونائی چوکنا ہو گیا۔
’’تم میرے بھائی ہو۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’تمھارا گانو اڑوت اجگاؤں ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
اس سے پہلے کہ اجگاؤ نکر اپنا ہاتھ کسی مصنوعی میلان سے ونائی کے کندھے پر
رکھتا، ونائی نے پوری قوت سے یوں جھٹک دیا کہ وہ اجگاؤ نکر کی پیٹھ سے جا لگا اور
اسے موچ آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ گپتے، حوالدار ڈھوکے اور دوسرے کانسٹبل حیران تھے کہ
اتنا سب کچھ ہو جانے، پہروں بھوکا رہنے کے باوجود اس چھوکرے میں اتنی طاقت کہاں سے
چلی آئی؟
’’میں تمھاری مار سہہ سکتا ہوں‘‘ ونائی بولا ’’پیار نہیں۔‘‘
صاف دکھائی دیتا تھا کہ ونائی کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ رہے ہیں اور کتنی محنت،
کتنی مشقت سے وہ انھیں کہیں اوپر بھیج رہا ہے۔ مگر چونکہ آنسو اور جذبہ ہم زلف
ہوتے ہیں، اس نے کسی رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے کہا ’’میں نے جو بولا ہے، سچ بولا ہے۔‘‘
’’سچ کہتے ہو‘‘ گپتے نے نرمی سے کہا ’’اس گھات کے پیچھے کسی اور
کا ہاتھ نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
اور پھر ونائی اپنے آپ شروع ہو گیا، جیسے کوئی صفائی یا تزکیہ چاہتا ہو ’’میں
اسے جاتی، مت بھید کے لیے مارتا تو بدلہ لینے کی بات ہوتی، پیسے کے لیے مارتا تو
چوری بیری، لوٹ مار کی۔ شریر کے لیے مارتا تو ریپ کی…‘‘
’’ہوں… ہوں … ‘‘ گپتے اور اجگاؤ نکر نے ایک ساتھ کہا اور ٹوٹی
کرسیاں آگے سرکالیں۔ وہ یک رُکنی الفاظ صرف ونائی ہی کا ٹھیکہ نہ تھے۔
’’میں نے ایشے کو اس لیے مارا ’’ونائی نے گروَ سے کہا ’’گنپتی
وسرجن کے پورے کراؤڈ میں وہی تھی، جس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ جو بہت خوب صورت لگ
رہی تھی، اور انوسینٹ۔‘‘
پھر تھوڑی دیر کے لیے وہ رُک گیا۔ جیسے وہ رُکا تھا، ویسے ہی شروع بھی ہو گیا
’’میں کسی ایسے کو قتل کرنا چاہتا تھا، جو ایک دم معصوم ہو، دیوی ہو، دیوتا ہو…‘‘
گپتے اور اجگاؤ نکر کے چہروں پر ابتری پھیل گئی۔ اب جو انھوں نے کہا، وہ
الفاظ کی مشت زنی تھی — ’’تمھیں پتا تھا،
ایشے کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ناتھو ، سلبھا؟‘‘
’’—اور صرف ایک پتی‘‘ ونائی نے جیسے پورے عمرانی نظام پر چوٹ کی۔
کچھ دیر خاموشی حکومت کرتی رہی۔
’’تم دلِت پینتھر ہو؟‘‘ آخر اجگاؤ نکر نے اس سکوت کو توڑا، قانون
شکنی کی۔ ونائی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سوال کو جواب کے قابل نہ سمجھتا تھا۔
’’کرانتی کار؟‘ گپتے نے تضحیک کے انداز میں کہا ’’بلیک پینتھر؟
چے گوارا کے پیرو؟ الفتح…‘‘
’’میں ان سب کا باپ ہوں‘‘ ونائی ایک دم ایکسائٹ ہوتے ہوئے کہا
’’میں نے ایک بے قصور کو مارا ہے۔‘‘ اور پھر اسی دم بولا ’’ان کا باپ اور تمھارا
پوھنا (داماد)۔‘‘
گپتے اُچھل گیا، مگر اجگاؤنکر نے اپنی مضبوط بانہوں سے اسے دبا دیا اور
بولا۔
’’جانتے ہو تمھارے جُرم کی سزا موت ہے؟‘‘
ونائی نے سر ہلایا ’’اسی لیے تو یہ سب میں کیا ہے… تم مجھے مارنا چاہتے ہو
اور میں مرنا چاہتا ہوں۔ بولو، جیت دونوں میں کس کی ہوئی؟… بکواس یہ ہے کہ اب تم میرے
ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی مارنا چاہتے ہو۔ جیسے ایک آدمی کے مارنے سے تمھارے
قانون کی کھُجلی دور نہیں ہوتی۔‘‘
اور یہاں سے ونائی کا ٹھنڈا غصّہ ایک واضح شکل اختیار کر گیا، کیونکہ اس کا
چہرہ بے رنگ تھا، کسی قسم کے تاثر سے عاری، جب کہ گپتے نے کہا — ’’مرو گے تو پتا
چلے گا ، مرنا کیا ہوتا ہے؟‘‘
"What
a Donkey?” ونائی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ گپتے اور
اجگاؤنکر نے اوپر سے ہزار واٹ کے ہنڈے کی روشنی ونائی پر پھینکنا شروع کر دی اور
بھی بہت سی چیزیں تھیں پوھنے کی خاطر کے لیے۔
دنیا کے کسی نہ کسی حصّے پر ہر سال، ہر وقت برف پڑتی ہے۔ ابھی وہ پگھل بھی
نہیں پاتی کہ اس پر اور برف پڑ جاتی ہے اور وقت کو منجمد اور قوسل بنا دیتی ہے۔
ونائی کی دنیا کا نقطۂ انجماد اسی دن سے بسیط ہونا شروع ہو گیا تھا، جب کہ
وہ کولی ماں باپ کے گھر پیدا ہو گیا۔ وہ ساڑھے چار سال کا تھا جب کہ اس کا باپ،
رتنا کولی، ریڈ سگنل کے باوجود اپنی ناؤ لے کر سمندر میں ٹھل گیا۔ اسی شام چاند
اور نیپچو نے مل کر نہ جانے کیا سازش کی کہ رتنا کو اپنے آغوش میں کھینچ لیا۔ وہی
مچھلیاں جنھیں رتنا کولی کھانا، پکانا اور بیچنا چاہتا تھا، مل کر اسے ہی کھاپکا
اور بیچ گئیں۔ ماں ایک سپیرے کے ساتھ بھاگ گئی اور کچھ برسوں کے بعد ونائی کے لیے
تین بہنیں اور دو بھائی لے کر لوٹ آئی۔ ونائی اسکائش آرفینج میں پڑھا، جو نام ہی
کا آر فینج — اناتھ آلیہ ہے ، مگر اس میں صرف ناتھ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ونائی اگر
وہاں پڑھا تو یہ فادرکرخانیس کی مہربانی تھی۔
وہ نقطہ اسی سال سمٹنا شروع ہو گیا، جب کہ لوگوں نے گنپتی کی مورتی گھر میں
استھاپت کی اور پھل پھول اس کی سیوا میں بھینٹ کرنے لگے۔ اس دن ونائی اینٹوپ ہل کے
دامن میں شکو سے آخری بار ملا۔
شکو ہاتھ میں گولڈ فلیک کا ایک پرانا ٹین تھامے کھڑی تھی اور بے حد پریشان
نظر آ رہی تھی۔ اس کی زلفیں وہم کی طرح سے لمبی، آنکھیں گمان کی طرح سے دھندلی اور
بدن یقین کی طرح سے سخت تھا۔ گویا اینٹوپ ہل کے ادھر آبنوس سے بنی ایک اپسرا تھی
اور اُدھر فولاد سے بنی اپسرا— ٹرامبے کاری ایکٹر۔ یہ میں ری ایکٹر کی مناسبت سے
کہہ رہا ہوں کہ شکو کا پورا بدن ایک بریتا تھا، جس کی کنی کنی یورینیم تھی اور نس
نس کو بالٹ۔ وہ معدنیات کی ایک کان تھی، جسے کسی نے ابھی تک پراسپیکٹ نہیں کیا
تھا۔ وہ دھاتوں کا خزانہ، اسے ایک ہی دھات چاہیے تھی اور وہ بھی صرف ونائی سے …
اسے نشچے ہو گیا تھا کہ یہی وہ مرد ہے جس کی وجہ سے اپنا آپ کم پڑتا ہوا محسوس
ہوتا ہے۔
جب شکو نے بتایا کہ وہ اور اس کے ماں باپ رات سے بھوکے ہیں، کیونکہ گھاسلیٹ
کے نہ ہونے سے چولھا نہیں جلا ، تو ونائی نے اپنے اسی یک رُکنی انداز سے کہا ——
’’ہوں۔‘‘
’’ہوں کیا؟‘‘ شکو نے ادا سے پوچھا، جس کے جواب میں ونائی نے پھر
وہی ’’ہوں‘‘ دُہرا دی، جو آواز پہلی ’’ہوں‘‘ سے مدھم تھی، کیونکہ وہ سمجھ سے تعلق
رکھتی تھی۔
جبھی، اسے قدوائی روڈ پر ماٹنگا سائین کی طرف جاتا ہوا ایسوکمپنی کا ایک ٹینکر
دکھائی دیا، جس میں گھاسلیٹ تھا۔ پیچھے اس کی ٹونٹی سے مٹی کا تیل قطرہ بہ قطرہ
ٹپک رہا تھا۔
ونائی نے شکو کے ہاتھ سے گولڈ فلیک کا ٹین جھپٹ لیا اور ٹینکر کے پیچھے
دوڑا۔ سامنے ایک ٹرک کے آہستہ ہو جانے سے ٹینکر کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ ونائی
اُچک کر اس کے پیچھے لٹک گیا۔ ایک ہاتھ سے اس نے سیڑھی تھامی اور دوسرے ٹین کی
ٹونٹی کے نیچے کر لیا ۔ وہ چاہتا تو پھرکی گھما کر ایک ہی سیکنڈ میں وہ چھوٹا سا ٹین
بھر لیتا ، مگر اس نے سوچا وہ صرف وہی تیل لے گا، جو گِر کر سڑک پر ضائع ہو رہا ہے…
شکو، کلیجے پر ہاتھ رکھے کھڑی دور سے اسے دیکھ رہی تھی۔
سِگنل موافق نہ ہونے سے ٹینکر تھوڑا ناکے پر رُکا اور پھر جھٹکے کے ساتھ
دائیں طرف مڑکر سائن ماٹنگا روڈ پر ہولیا۔ ریل کا پُل پار کرتے ہی ونائی کا ٹین
بھرنے لگا۔ جبھی راشن کی دُکان پر گھاسلیٹ کے لیے لمبے کیو میں لگے ہوئے لوگوں نے
دیکھا اور شور مچا دیا—— ’’چور چور…‘‘ ونائی کا ہاتھ سلپ ہو گیا اور وہ نیچے سڑک
پر گر گیا۔ ٹینکر رُکا۔ لوگ لپکے اور ونائی کو پکڑ کر اُسے مارنا شروع کر دیا۔ ٹینکر
کا ڈرائیور اس کا کنڈکٹر ساتھی اسے گھسیٹتے ہوئے پاس ہی کے پولس اسٹیشن کی طرف لے
جانے لگے۔ ونائی کو صرف ایک ہی چوٹ آئی تھی اور وہ یہ کہ ٹین کے ساتھ گھاسلیٹ بھی
نیچے گر گیا تھا۔
ونائی نے نہیں، مگر جانے کس نے شکو کا نام لے دیا۔ اس دن بہت گرمی تھی کیونکہ
بادل تنے تھے، مگر چھینٹا نہیں پڑ رہا تھا۔ جبھی پولس کا ایک آفیسر جیپ لیے انیٹوپ
ہل کی جھونپڑی میں پہنچ گیا— ’تفتیش‘ کے لیے، اس نے شکو اور اس کے ماں باپ کو بتایا
کہ ونائی حوالات میں ہے۔ اس پر چوری ، ڈاکے—’ہائی وے رابری‘ کے دوش لگے ہیں۔ شکو ایک
تو پہلے ہی بھوکی تھی۔ اس پر ونائی کے پکڑے جانے کی بات سن کر وہ کانپنے لگی۔
’’اسے مارا تو نہیں؟‘‘ وہ بولی۔
آفیسر نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے پیاس لگی تھی۔ اس کی وجہ گرمی تھی یا شکو، یہ
نہیں معلوم۔ لیکن جب شکو نے گھڑے سے پانی نکال کر اسے دیا، تو اس نے لینے ، پینے
سے انکار کر دیا۔ شکو نے سوچا کوئی بات نہیں… اونچی جات کا ہو گا۔ آفیسر نے بتایا،
ونائی، گھر آسکے گا، جب کوئی اس کا ضامن بنے گا۔
شکو نے چھاتی پر ہاتھ رکھا اور بولی ’’جامن میں بنوں۔
’’تم؟‘‘ شکو کے باپ نے کہا — ’’تمھارے…‘‘‘
جب تک شکو غلیل کے گُلّے کی طرح سے باہر چھوٹ گئی تھی۔ آفیسر اٹھا اور شکو
کے باپ کو دلاسا دیتے ہوئے بولا ’’گھبراؤ نہیں کاکا، شخصی — پرسنل ضمانت بھی ہو
سکتی ہے…‘‘
اور وہ باہر کھڑی جیپ کی طرف چل دیا۔
بوڑھے نے وتسلا، شکو کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں شک تھے۔ مگر وتسلا بائی
بولی۔ کوئی بات نہیں، جانتی نہ ہوتی تو آ جائے گی۔ شکو…‘‘
ونائی حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے ڈیوٹی آفیسر کو دیکھ کر چلاّ رہا تھا۔
’’میں نے کوئی چوری نہیں کی، انسپکٹر … کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ ٹینکر
سے گھاسلیٹ ٹپک رہا تھا، سڑک پر گِر کر ویسٹ ہو رہا تھا‘‘…
ڈیوٹی آفیسر بنیے کی طرح کسی امیر گاہک کی طرف متوجہ تھا۔
پولس آفیسر کی جیپ پہلے آ گئی، جس سے اُتر کر وہ پولس اسٹیشن کے پیچھے چلا
گیا۔ جہاں راستہ کوارٹروں کی طرف جاتا تھا۔ ونائی نے شکو کو دُور سے آتے دیکھا۔ وہ
بھاگ رہی تھی اور اس کی گھنگھور زلفیں ، پیچھے کی طرف اُڑ رہی تھیں، کہیں برسنے جا
رہی تھیں۔ اگلے ہی پل میں وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
آدھ پون گھنٹے کے بعد ایک کانسٹبل نے حوالات کا دروازہ کھولا اور کہا
’’ونائیک راؤ… باہر۔‘‘
ونائی جو اس ارتقا کے لیے تیار ہی نہ تھا، بولا— ’’کیا مطلب؟… کیوں، کیسے؟‘‘
باہر آیا تو اس نے شکو بائی کو ڈیوٹی روم میں نہ پایا۔
’’میری ضمانت کس نے دی ہے؟… کس نے بیل آؤٹ کیا ہے مجھے؟ … اس نے
ڈیوٹی آفیسر سے پوچھا، جس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔
ونائی نے دیکھا شکو پولس اسٹیشن کے احاطے سے باہر جا رہی ہے، اور وہ اپنی
نہیں کسی اور ہی کی چال چل رہی ہے…
اس سے پہلے کہ وہ باہر لپکتا، ڈیوٹی آفیسر نے اسے روکا اور ایک کاغذ سامنے
رکھتے ہوئے کہا — ’’ہئی کرو… 3ـ؍اکتوبر کو باندرا کورٹ میں حاجر ہونا مانگتا ،
سمجھا؟‘‘
ونائی نے جلدی سے کاغذ پر دستخط کیے، اس کی نقل ہاتھ میں چُرر مُرر کی اور
پھر باہر کی طرف بھاگا۔ سڑک سے اُدھر ٹریفک سگنل کے سامنے ہی ونائی نے شکو کو آ لیا۔
’’شکو‘‘ ونائی نے کہا…
شکو کچھ نہ بولی۔ وہ رو رہی تھی اور نہ ہنس رہی تھی۔ وہ اس عالم میں تھی جس
میں انسان دیکھتا ایک چیز ہے اور سوچتا دوسری، اور سوال کرنے والے کی طرف مُڑ کر
صرف اتنا سا کہتا ہے۔ ایں؟
ونائی نے شکو کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا— ’’کیا ہوا شکو؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘ شکو نے جواب دیا۔
ونائی اس کے پیچھے ہولیا، اور کچھ نہیں تو ٹریفک سے اسے بچانے کے لیے۔
سِگنل کے پاس پہنچ کر ایک بار ونائی نے مڑکر پیچھے پولس اسٹیشن کی طرف دیکھا، جس کی
دیواریں ٹھوس کنکریٹ سے بنی تھیں۔
سِگنل کے دوسری طرف سڑک پر رُکی ٹریفک ابھی راستہ نہ دے رہے تھی۔ وہ دونوں
پیراپٹ پر کھڑے تھے۔ جب کہ ونائی نے پھر پوچھا— ’’شکو! بول تو سہی کیا ہوا؟‘‘
شکو نے ایک فریادی نظر سے ونائی کی طرف دیکھا۔
’’تم نے میری ضمانت دی ہے؟‘‘ ونائی نے پوچھا۔
’’—‘‘
’’کیسے دی ہے؟ تمھارے پاس…‘‘
شکو نے حقارت کی نظر سے ونائی کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں زبان سے زیادہ
ناطق تھیں جو کہہ رہی تھیں—مرد کی جات کتّے کی ہے… وہ اگر اپنی زبان کو شرمندۂ
الفاظ کرتی تو ونائی کہتا—کتّے کی نہیں، بھیڑیے کی۔ مگر وہ وہی بے گانی چال چلتی
ہوئی سڑک پار کر گئی اور قدوائی روڈ کی پٹری پر ہولی۔ ونائی نے لپک کر اس کا ہاتھ
پکڑا اور جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا اور بولا— ’’شکو۔‘‘
شکو پلٹ کر اُلٹ کر ونائی سے آلگی۔ یوں معلوم ہوا جیسے وہ اس کی چھاتی پر
اپنا سر رکھ کر اپنا دُکھ رولے گی، سکھ بولے گی۔ مگر نہیں، شکونے اپنا ہاتھ چھُڑا
لیا۔ اسے ونائی سے نفرت تھی، اپنے آپ سے نفرت تھی… وہ چل دی!
ونائی بھوچکا کھڑا رہ گیا اور شکو کو جاتے دیکھنے لگا، جس نے اپنے کاشٹے کا
پلّو منھ میں ٹھونس لیا تھا اور جا رہی تھی۔ سامنے بائیںہاتھ پر ہاسٹل ، ہاربر
برانچ کی ریلوے لائنیں اور انیٹوپ ہِل کی جھونپڑیاں نظر آ رہی تھیں۔
ونائی سب جان گیا تھا، سب سمجھ گیا تھا وہ کتنا کہنا چاہتا تھا، شکو تم
نردوش ہو کنواری ہو… انہی حالات میں سبزی بیچنے والی شانتا کو اس کے پتی نے گھر سے
نکال دیا تھا اور آج وہ فارس روڈ کی جنگو بائی کے قحبہ خانے میں رہتی ، دھندا کرتی
ہے۔ روز رات چھ سات مرد اسے روندتے دَلتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ اس سے کم ہوں تو نہ
وہ میڈم ، نہ د لال کے پیسے دے سکتی ہے اور اسے پھیری والے کی سوکھی روٹی اور مرچ
کھانی پڑتی ہے۔ لیکن وہ کنواری ہے، کیونکہ نہ اسے اپنے گاہکوں سے محبت ہے، نہ اپنے
پتی سے تھی…
ونائی کا خیال تھا، شکو آخر اسے بُلائے گی، لوٹ کر آئے گی۔ مگر نہیں۔ وہ تو
اپنے آپ کو اب ونائی کے قابل نہ سمجھتے ہوئے جاچکی تھی۔ ونائی نے آخری بار اسے اپنی
نظروں کی سرحد پر دیکھا اور چِلاّ اُٹھا— ’’میں 3؍اکتوبر نہیں آنے دوں گا… میں تین
اکتوبر نہیں آنے دوں گا…‘‘
اور اسی عالم میں وہ بھاگتا ہوا ماٹنگا کی بھاری ٹریفک میں کہیں گم ہو گیا…(تھا)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment