============= ان دیکھی محبت
============
آج طاہر ہواؤں میں تها سورج چاند ستارے
سب کچھ اُسے ہیچ نظر آرہے تھے۔
آج برسوں کی محرومیاں شکست کھانے والی تھیں ۔
اب وہ کہ سکتا تھا کہ میں قبول صورت
نہیں بلکہ ایک ایسا وجیہ نوجوان ہوں جس نے صرف اپنی قابلیت اور من موہنی باتوں سے
ایک حسینہ کا دل جیت لیا ہے۔۔
طاہر مخمور انداز میں چلتا ہوا ثناء کے کمرے تک آیا۔۔
"ثناء ،،ثناء " ، طاہر
اسکو آوازیں دیتا ہوا کمرے تک آگیا تھا اسے کمپیوٹر پر بیٹھا دیکھ کر اس کے تن بدن
میں آگ لگ گئی
'امی کتنی بار اور کس زبان میں سمجھانا پڑے گا آپ اسکو روکتی کیوں نہیں'؟
طاہر جھنجلاہٹ بهرے انداز میں بولا
طاہر کا موڈ آج بہت اچھا تها پورے
دو مہینے کی دوستی کے بعد سعدیہ نہ اسے آئی لو یو ٹو بولا تها اور صبح نو بجے ملنے
کا وعدہ بھی کیا تها ۔
مگر یہ ثنا کی بچی ہمیشہ موڈ آف کردیتی ہے
"" اس کو تو اک دن سبق سکهاوں گا فیس بک نہ ہو گیا آکسیجن ہوگئی اس کی۔
"" طاہر بڑبڑاتا ہوا اوپر کمرے میں چلا گیا
"" سعدیہ تم میری جان ہو تمہارے لیے میں ہر طوفان سے ٹکرا جاوں گا۔
"" طاہر نے سعدیہ کو محبت بھرا جذباتی پیغام بھیجا" طاہر نے آنکھیں
بند کیں اور سعدیہ کے تصور میں کهو گیا کتنی پیاری ہے سعدیہ اچانک اس کو خیال آیا
اس نے سعدیہ کے مانگنے پر ایک فیک آئی ڈی والی تصویر بھیجی تھی کیونکہ وہ گہرا
سانولا تها اور دو تین لڑکیاں اس کو منہ پر رجنی کانت کہہ کر چلی گئی تهیں۔۔
سعدیہ کو وہ کهونا نہیں چاہتا تھا اسی لئے اپنی تصویر نہیں بھیجی
"جب ہم ملیں گے تو میں اس کو سچ بتا دوں گا پیر پکڑ لوں گا مگر میں اسے کهونا
نہیں چاہتا"۔۔
طاہر من ہی من فیصلہ کر چکا تھا کہ کسی قیمت پر وہ سعدیہ کو کھو نہیں سکتا۔۔
آج کی رات بڑی طویل ہے اُس نے دیوار گیر گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں
موندلیں۔
علی الصبح طاہر نے اپنا سب سے
قیمتی جوڑا زیب تن کیا اور خراماں خراماں اپنی موٹر بائیک کی طرف بڑھا۔۔
ماں نے آواز دی۔۔
طاہر بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ ۔۔
نہیں ماں مجھے جلدی ہے مجھے آج کام پر جلدی پہنچنا ہے۔
طاہر مضطرب ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔۔
ٹھیک نو بجے پارک کی پچھلی طرف سے اُسے سعدیہ آتی دکھائی دی جو مکمل حجاب میں تھی
۔
طاہر کی سانسیں بے ترتیب تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دل سینہ پھاڑ کر باہر
آجائے گا۔
مگر یہ دیکھ کر اُس کی آنکھیں
پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ اُس کے سامنے سعدیہ کے روپ میں ثناء کھڑی تھی۔۔
اُس کی اپنی چھوٹی بہن تھی جو وہی
چادر اوڑھے ہوئے تھی جو نشانی کے طور پر طے ہوئی تھی اور طاہر نے بھی وہی سوٹ پہن
رکھا تھا جو کہ نشانی کے طور پر طے تھا۔۔
اب دونوں کے پاس ندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ نہ تھا۔۔
ثناء نے روتے ہوئے طاہر سے کہا بھائی آپ مجھے قتل تو نہیں کرو گے؟۔۔
کیونکہ میں نے آپ کی عزت برباد کردی۔۔
طاہر نے آسمان کی طرف دیکھا اور زار وقطار روتے ہوئےکہا ۔۔
یااللہ ہم دونوں کی خطا معاف فرما۔۔۔
تحریر : وردہ باجوہ
No comments:
Post a Comment