نیند آئی نہ کھلا رات کا بستر مجھ سے
گفتگو کرتا رہا چاند
برابر مجھ سے
اپنا سایہ اسے خیرات میں
دے آیا ہوں
دھوپ کے ڈر سے جو لپٹا
رہا دن بھر مجھ سے
کون سی ایسی کمی میرے خد
و خال میں ہے
آئینہ خوش نہیں ہوتا
کبھی مل کر مجھ سے
کیا مصیبت ہے کہ ہر دن
کی مشقت کے عوض
باندھ جاتا ہے کوئی رات
کا پتھر مجھ سے
دشت کی سمت نکل آیا ہے
میرا دریا
بس اسی پر ہیں خفا سارے
سمندر مجھ سے
اپنے ہاتھوں کو جو کشکول بنایا گوہرؔ
گر پڑا جانے کہاں میرا مقدر مجھ سے
No comments:
Post a Comment