پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ
بادل کی طرح
دست گل پھیلا
ہوا ہے مرے آنچل کی طرح
کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات میں بھیگے ہوئے جنگل کی طرح
اونچی آواز میں اس نے تو کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح
مل کے اس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں
بول اٹھتی ہے نظر ، پاؤں
کی چھاگل کی طرح
پاس جب تک وہ
رہے درد تھما رہتا
ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
اب کسی طور سے گھر جانے کی صورت ہی نہیں
راستے
میرے لئے ہوگئے دلدل
کی طرح
جسم کے تیرہ
و آسیب زدہ
مندر میں
دل سر شام سلگ اٹھتا ہے صندل کی طرح
پروین
شاکر
No comments:
Post a Comment