احمد فراز
وہ تفاوتیں ہیں میرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے
کہ تو آسمان پر ہو تو ہو یہ سر زمیں کوئی اور ہے
وہ جو راستے تھے وفا کے تھے یہ جو منزلیں ہیں سدا کی ہیں
میرا ہم سفر کوئی اور تھا میرا ہم نشیں کوئی اور ہے
میرے جسم و جاں میں تیرے سوا نہیں اور کوئی بھی دوسرا
مجھے پھر بھی لگتا ہے اس طرح کہ کہیں کہیں کوئی اور ہے
میں اسیر اپنے غزال کا میں فقیر دشت وصال کا
جو ہرن کو باندھ کے لے گیا وہ سبکتگیں کوئی اور ہے
......
سلیم کوثر
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
.....
نصیر ترابی
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے
مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے
یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو
مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے
یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا
کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے
ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں
دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے
یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے
ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے
دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا
رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے
بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے
جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے
یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی
بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے
.......
ناصر کاظمی
کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے
یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمو کوئی اور ہے
جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے
کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا میکدہ کہیں اور ہے مرا ہم سبو کوئی اور ہے
.....
صابر ظفر
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی
مرے درجہ وار شہید ہیں ، مری کربلا کوئی اور ہے
کئ لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئ نقش تھے جو بگڑ گئے
کئ شہر تھے جو اجڑ گئے ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
نہ تھا جس کو خانہ خاک یاد ہوا نذر آتش و ابر و باد
کہ ہر ایک دن دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے
ہوئے خاک دھول تو پھر کھلا یہی بامراد ہے قافلہ
وہ کہاں گئے جنہیں زعم تھا کہ راہ وفا کوئی اور ہے
یہ ہے ربط اصل سے اصل کانہیں ختم سلسلہ وصل کا
جو گرا ہے شاخ سے گل کہیں تو وہیں کھلا کوئی اور ہے
وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور ،کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
کوئی ہے تو سامنے لائیے ، کوئی ہے تو شکل دکھائیے
ظفر آپ خود ہی بتائیے ، مرے یار سا کوئی اور ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
.......
دلاور فگار
وہ جو مہر بہر نکاح تھا وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
یہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا مری اہلیہ کوئی اور ہے
ضیاء الحق قاسمی
میں ٹنگا رہا تھا منڈیر پر کہ کبھی تو آئے گا صحن میں
میں تھا منتظر کسی اور کا مجھے گھورتا کوئی اور ہے
خالد عرفان
وہ سہاگ رات جہیز میں سگ پالتو بھی لے آئی تھی
جو سحر ہوئی تو پتہ چلا یہاں تیسرا کوئی اور ہے
پاپولر میرٹھی
......
تو ہے تیرہ بچوں کی ماں تو کیا ابھی کچھ بڑھے گا یہ قافلہ
بخدا نشاط امید کا ابھی مرحلہ کوئی اور ہے
No comments:
Post a Comment