, *تعلیم و تعلم اور عشق
معاشقہ*
ا سلام آباد کے علاقے ترنول کے ایک سکول میں 16
سالہ "طالبِ عشق" نے اپنی 19 سالہ اُستانی کی "محبت" میں
ناکامی پر کلاس میں خود کو گولی مار کر قتل کردیا۔۔۔۔۔ یہ خبر انتہائی افسوسناک ہی
نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے، یہ کوئی نئی خبر یا نیا واقعہ نہیں۔۔۔۔اس سے قبل بھی ایسے
واقعات تسلسل سے ہوتے رہے ہیں۔
کچھ باتیں عرض کرنی ہیں:۔۔
اول تو ایسے نامردوں کی
پیدائش پہ افسوس ہے، جو داڑھی مونچھ کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنی زندگی کا مقصد
نہیں سمجھ پاتے، اپنی قیمتی جان کو کسی کے "پیار" کیلئے وار دینا
۔۔۔۔۔
اپنی جان کا چراغ اپنے ہاتھوں گُل کردینا۔۔۔۔۔ یہ کونسی محبت ہے بھئی ۔۔۔۔؟
اِس
"عشق، محبت یا پیار" کا کانسپٹ کہاں سے آیا کہ جس میں بچے اپنی جان تک
لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔ *
کیا یہ ان کارٹونس، فلموں اور ڈراموں کا نتیجہ نہیں؟
جو پورا
گھر ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتا ہے۔۔ جس میں والدین سے بغاوت، خود کشی، خودسری اور کسی
بھی حد کو پھلانگنے کیلئے کچے اذہان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔۔۔؟؟* دوسری بات یہ ہے کہ *میٹرک اور انڈر میٹرک
کے لڑکوں کو پڑھانے کیلئے 18 اور 19 سالہ دو شیزائیں کس لئے رکھی جاتی ہیں؟* معلم اور متعلم کے مقدس ترین رشتے کے نام
پر عاشق اور معشوق کو درس گاہ کی بجائے ڈیٹ پوائنٹ فراہم کرنے والے پرائیویٹ سکول
مالکان سے کوئی پوچھ گچھ ہوسکتی ہے؟ 1500 سے 5000 ماہانہ تنخواہ پر آغازِ شباب کے
نازک ترین دور سے گزرنے والی میٹرک اور انٹر پاس بچیاں تدریس کے لئے رکھی جاتی
ہيں۔۔اس پر کون ایکشن لے گا؟ ہے کوئی جو اس مافیا کے خلاف قانونی چارہ کوئی
کرے۔۔۔؟؟
کیا وہ والدین اندھے، بہرے، یا دنیا و مافیہا سے بے بہرہ ہیں جنہیں اپنے
بچوں کے تعلیمی ادارے کے متعلق خبر نہیں کہ کیا پڑھایا جارہا ہے، اور کس قسم کا
نظام ہے۔؟ کیسی تربیت کی جارہی ہے اور کیا ذہن سازی ہورہی ہے، ماحول کیسا فراہم
کیا گیا؟
یہ سب کچھ والدین کی ذمہ داری ہے، لیکن اس میں سراسر کوتاہی برتی جاتی
ہے۔۔کیا یہ والدین اپنے بچوں کا بستہ، ہوم ورک اور روازانہ کا معمول نہیں دیکھتے
کہ ان کے بچے کے بستے میں کوئی ذہنیت بگاڑنے والا ناول، جریدہ، یا رسالہ تو نہیں
ہے۔؟ کیا اس کے موبائل فون کا استعمال درست ہے۔؟
مگر الله غارت کرے اس فکر کو کہ
جس نے بچے کو والد کے پستول تک پہنچا دیا اور والدین کو خبر تک نہ ہوئی۔ آخری نکتہ
یہ ہے کہ وہ دوشیزہ جوٹیچر سے زیادہ فیشن ماڈل بن کر سکول آتی ہے، بلوغت سے تازہ
تازہ آشنائی پانے والے لڑکوں سے بے تکلفی، گپ شپ، موبائل نمبر شیئرنگ اور نہ جانے
کیا کچھ ہوتا ہے، اُس میں اس ٹیچر کی کتنی ذمہ داری ہے؟؟ کہ وہ کس حلیے، لباس،
تراش خراش اور چال ڈھال کی پابند ہے۔؟ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔۔
خواتین کے فیشن اور میک اپ مقابلے تعلیمی اداروں میں بھی عروج پر ہوتے ہیں۔ جتنی
تنخواہ ان پرائیویٹ اداروں میں ٹیچرز کو دی جاتی ہے، وہ بمشکل ان کے ماہانہ میک اپ
کے سامان اور موبائل بیلنس پورا کرپاتی ہے۔۔ بس ایسی تنخواہوں پر پڑھائی کا معیار
بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں ہر روز کوئی اسامہ، عبداللہ، نوروز اور فاطمہ نور جیسوں
کے لاشے گرا کرتے ہیں۔
وزارت تعلیم ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرتے وقت عمارت، عملہ،
تمام میکنزم اور معلومات لے کر تحقیق کے بعد معیار پر پورا اُترنے والے اداروں کی
رجسٹریشن کرے، یہ گلی گلی میں تعلیم کا کاروبار کرنے والے سکول نامی دوکانیں،
مخلوط نظام اور اخلاقیات کے جنازے اٹھانے والے تمام ادارے بند کردینے چاہئیں، یہ
والدین، سکول انتطامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنی نئی نسل کو اس اندھیرے
کنویں میں ڈوبنے سے بچائیں، ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات، اخلاق باختہ
پروگرامات اور ایسی خرافات مستقبل کے معماروں کی اخلاقی تباہی، بے یقینی، خود پہ
عدم اعتماد، مجرمانہ فکر اور بے راہروی کا پیش خیمہ ہیں۔
نوٹ: *اسلام کی تعلیم حاصل کرو اور دوسروں کو
سکھاؤ ورنہ تباہ تو خود بھی ہو چکے ہو اور اپنے بچوں کو بھی برباد کر رہے ہو۔*
No comments:
Post a Comment