آ۔ کی کہاوتیں
(
۶۳) آنکھوں کا کاجل
چرا لیتا ہے :
نہایت شاطر اور چالاک ہے، اپنا کام ایسی صفائی
سے کر جاتا ہے کہ گمان بھی نہیں ہوتا۔
(۶۴) آنتیں قل ہو
اللہ پڑھ رہی ہیں :
یعنی بے حد بھوک لگ رہی ہے۔ قل ہو اللہ پڑھنا یہاں روزمرہ کا استعمال ہے۔ اگر قل ہو اللہ کی جگہ
کسی اور سورۃ یا آیۃ کا نام لیا جائے تو
غلط ہو گا اور بات نہیں بنے گی۔
(۶۵) آنکھوں دیکھے
مکّھی نہیں نگلی جاتی :
محاورہ میں ’’ مکھی نگلنا‘‘ کسی مکروہ کام یا
بات کو طوعاً و کرہاً قبول کر لینے کو کہتے ہیں ۔ آنکھوں دیکھی یعنی سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی۔ مطلب یہ ہے
کہ اگر کوئی غلط چیز صاف نظر آ رہی ہے تو سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے اُس کو
قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ
دودھ میں مکھی پڑی ہوئی نظر آ جائے اور ہم
اس کو دیکھنے کے بعد بھی نگل جائیں۔
(۶۶) آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں
:
یہ کہاوت ایک کہانی سے ماخوذ ہے۔ ایک شہزادہ کے
جسم میں جادو کی بے شمار سوئیاں چبھو دی گئیں اور وہ ان کے اثر سے بے ہوش ہو گیا۔ اس کو
جگانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ جسم کی ساری سوئیاں
نکال لی جائیں ۔ اتفاق سے ایک شہزادی کا گزر وہاں سے ہوا اور وہ شہزادہ کو دیکھ کر اس پر فریفتہ
ہو گئی۔شہزادے کو جگانے کے لئے شہزادی نے اُس کے جسم سے سوئیاں نکالنی شروع کیں۔ ہر روز وہ کچھ سوئیاں نکال دیتی یہاں تک کہ صرف آنکھوں کی سوئیاں
رہ گئیں۔ اس دن شہزادی کو کسی ضرورت سے کہیں جانا پڑا تو اس کی خادمہ نے موقع دیکھ کر شہزادے
کی آنکھوں کی سوئیاں نکال دیں۔ شہزادہ پر سے جادو کا اثر زائل ہو گیا
اور وہ جاگ گیا۔خادمہ کو دیکھ کر وہ سمجھا کہ یہ احسان اسی نے کیا ہے۔چنانچہ اُس
نے خوش ہو کر خادمہ سے شادی کر لی۔ جب شہزادی واپس آئی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی۔کہانی
کے آخر میں شہزادہ کو اصل صورت حال معلوم
ہو جاتی ہے اور وہ شہزادی سے شادی کر کے اسے اپنی ملکہ بنا لیتا ہے اور خادمہ کو
سزا ملتی ہے۔ اسی حوالہ سے یہ کہاوت ایسے موقع پراستعمال ہوتی ہے جب کسی کام کے
پورے ہونے میں ذرہ بھر ہی کسر رہ جائے۔
No comments:
Post a Comment