الف ۔ کی کہاوتیں
(۱ ) اب سے دُور :
یہ عورتوں
کی زبان ہے۔ اگر کسی مصیبت کا ذکر مطلوب ہو جو کسی عزیز پر گزر چکی ہو تو
کہتے ہیں کہ ’’اب سے دور جب تمھارے ساتھ ایسا
ہوا تھا۔‘‘ اس میں یہ دعا بھی مخفی ہے کہ اَ للہ نہ کرے کہ پھر تم
ایسی مشکل سے دو چار ہو۔
(۲) اب کھائی تو کھائی،ا ب کھاؤں تو رام دُہائی
:
یہ عورتوں کی زبان ہے۔ رام دہائی یعنی خدا کی
پناہ۔ اگر کسی کام کا انجام برا ہو تو اس کو دوبارہ کرنا حماقت ہے۔ چنانچہ اگر کسی
معاملہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو یہ کہاوت
بولی جاتی ہے کہ ایساکام دوبارہ نہیں
کروں گا۔
(۳) اب پچھتائے کیا ہوت ہے جب چڑیاں چُگ گئیں
کھیت :
یہ عوامی کہاوت ہے۔ جب کام خراب ہو
جائے تواُس پر کفِ افسوس ملنے سے کیا حاصل؟ بہتری کی صورت تو اَوّل وقت ہی اختیار
کرنی چاہئے تھی۔ یہی اس کہاوت میں کہا گیا
ہے کہ جب چڑیاں سارا کھیت کھا کر چوپٹ کر
چکیں تو اب افسوس سے کیا ملے گا؟ مناسب تدبیر کرنے کا وقت تو چڑیوں کے آنے سے قبل تھا۔ ایسے ہی معنی میں ایک اور کہاوت ہے کہ’’ سانپ تو گذر گیا اب لکیر
کیا پیٹنا؟‘‘
(4) ابھی دلّی دور ہے :
یعنی ابھی منزل مقصود بہت دور ہے،
کامیابی کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس
کہاوت کے پس منظر میں یہ حکایت بیان کی
جاتی ہے کہ بادشاہ دہلی غیاث الدین تغلق کو حضرت نظام الدین اولیاء سے بغض تھا۔جب وہ بنگال کی مہم سے واپس آ رہا
تھا تو اس نے ایک قاصد کے ذریعہ حضرت نظام الدین کو یہ پیام بھیجا کہ وہ بادشاہ کے
دہلی پہنچنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور
چلے جائیں۔ حضرت موصوف نے فرمایا کہ ’’بابا ! ہنوز دلی دُور است‘‘۔ یعنی ایسی بھی
کیا جلدی ہے، پہلے دہلی پہنچ لے پھر دیکھا جائے گا کہ اللہ کا کیا حکم ہے۔ شومیِ قسمت
سے بادشاہ راستہ ہی میں محل کی ایک دیوار
سے دب کر مر گیا اور اسے دہلی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
(۵) ابھی منہ کی دال نہیں جھڑی :
یعنی ابھی بچپن یا نا تجربہ کاری کا
زمانہ ہے۔ چڑیا کا بچہ جب انڈے سے نکلتا ہے تو اس کی چونچ کی دونوں جانب ایک سفید یا ہلکا پیلا داغ ہوتا ہے جس کو
دال کہتے ہیں۔ عمر کے ساتھ یہ داغ مٹ جاتا ہے۔ اس کو دال کا جھڑنا کہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment