الف ۔ کی
کہاوتیں
(۶)اب ستونتی بنے، لُوٹ کھایا سنسار :
ستونتی یعنی نیک اور وفا شعار۔ کوئی
شخص دوسروں کو لوٹ کھسوٹ چکے اور پھر نیکی
اور دیانت داری کا دعوی ٰ کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۷) ابر کو دیکھ کر گھڑے پھوڑ دئے :
یعنی بادل دیکھ کر اس اُمید پر گھڑے
توڑ دئے کہ اب تو پانی مل ہی جائے گا،گھڑوں
کی کیا ضرورت ہے؟ ایک موہوم اُمید
پر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
(۸) ابھی مونڈے مانڈے سامنے آئے جاتے ہیں
:
ایک شخص بال کٹوانے کے لئے حجام کے
سامنے بیٹھا اور اس سے پوچھا کہ ’’میرے سر پر کتنے بال ہیں ؟‘‘ حجام نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’’ججمان جی!
گھبراتے کیوں ہو۔ ابھی مونڈے مانڈے سامنے
آئے جاتے ہیں۔‘‘ کوئی شخص اپنے کاموں کے انجام سے باخبر نہ ہو تو تنبیہ کے طور پر یہ
کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۹) ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے :
بچوں کے دودھ کے دانت ان کی کم عمری اور نا تجربہ
کاری کی نشانی ہیں۔ یہ کہاوت ایسے شخص کے لئے کہی جاتی ہے جو اپنے تجربوں میں نا
پخت اور غیر آزمودہ ہو۔
(۱۰) اپنا رکھ، پرا یا چکھ :
اپنا مال بچا بچا کر رکھ
اور دوسرے کی پونجی طرح طرح سے خرچ کر۔ یہ بھی دُنیا کا ایک دستور ہے۔
(۱۱) اپنے ہی تن کا پھوڑا ستاتا ہے :
اپنا یا اپنے عزیزوں کا دُکھ ہی زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ غیروں کا دُکھ کم ہوتا ہے۔
(۱۲) اپنی پیٹھ اپنے تئیں دکھائی نہیں دیتی ہے
:
یعنی جس طرح اپنی پیٹھ کوئی شخص نہیں دیکھ سکتا اُسی طرح اپنے عیب بھی اُسے نظر نہیں آتے۔
(۱۳) اپنا ہاتھ جگناتھ :
جو کام خود کر
لیا جائے وہی سب سے اچھا ہوتا ہے۔دوسروں
پر بھروسہ کرنے میں مشکل پیش آ سکتی
ہے اور اکثر آتی بھی ہے۔ ’’آپ کاج، مہا کاج’’ کا بھی یہی مطلب ہے۔
No comments:
Post a Comment