الف ۔ کی کہاوتیں
(۳۵) اتنی گرمی کہ چیل انڈا چھوڑ
رہی ہے :
یہ کہاوت
بھی گرمی کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔چیل اگر انڈے پر بیٹھی ہو تو آسانی سے اُسے چھوڑ کر نہیں جاتی۔ گرمی کی بے تحاشہ شدت کی تصویر کشی کرنی
ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں یعنی چیل کو
اپنے آنے والے بچوں کی بھی پروا نہیں اور اُسے سایے کی تلاش ہے۔
(۳۶) اِتنے کی بُڑھیا بھی نہیں جتنے کا لہنگا پھٹ گیا :
یعنی
بُڑھیا کا لہنگا بُڑھیا سے زیادہ مہنگا اور دل پسند تھا۔ اگر کسی کام میں اصل رقم سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ جائے تو یہ
کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۳۷) اُتّم سے اُتّم ملے اور ملے نیچ
سے نیچ :
اُتّم یعنی
اعلیٰ۔ شرفا شریف لوگوں کی صحبت تلاش کرتے ہیں
اور ذلیل اپنے ہی جیسے لوگوں میں خوش رہتے ہیں۔ اسی معنی کو ایک شعر یوں بیان کرتا ہے:
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر، باز با باز
(ہم جنس پرندے ایک دوسرے کے ساتھ اُڑتے ہیں،
کبوتر،کبوتروں کے ساتھ پرواز کرتا ہے اور
باز دوسرے بازوں کے ہمراہ)
(۳۸) اتنی سی جان، گز بھر کی
زبان :
کوئی
شخص عمر یا رتبہ میں کم ہو لیکن بد زبان
ہو تواُس کے لئے یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۳۹) اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جانا
:
یہ
پرانے زمانے کی عورتوں کی کہاوت ہے۔اس کا
مطلب ذرا
سی بات پر رُوٹھ کر چارپائی پکڑ لینا ہے۔ عورتیں اپنی بات منوانے کی ضد میں منھ لپیٹ کر چارپائی پر خاموش پڑ رہتی ہیں اور جب تک بات پوری نہ ہو ضد پر اَڑی رہتی ہیں۔
اس کو’’ اَن سَٹ پاٹی لے کر پڑ جانا‘‘ بھی کہتے ہیں۔اٹواٹی کھٹواٹی یعنی چھوٹی
چارپائی۔ اِ س طرز بیان میں طنز اور حقارت
کا پہلو بھی نکلتا ہے۔
No comments:
Post a Comment