آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو
بہت یاد کیا
جب کبھی گردشِ تقدیر نے
گھیرا ہے ہمیں
گیسوئے یار کی الجھن کو
بہت یاد آئے
شمع کی جو بات پے چلتے
ہوئے پروانوں نے
اک تیرے شعلہ دامن کو
بہت یاد آئے
جس کے ماتھے پے نئی صبح
کا جھومر ہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن
کو بہت یاد کیا
آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی
بہت یاد آئی
آج بیتے ہوئے ساون کو
بہت یاد کیا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment