پریشاں
عکسِ ہستی، آئینہ بے نور دیکھا ہے
میری آ نکھوں نے افسردا چراغِ طور دیکھا ہے
میری آ نکھوں نے افسردا چراغِ طور دیکھا ہے
سرور و کیف کا معیار اپنی ذات سے ہے ساقی
شراب درد سے ہر جام کو معمور دیکھا ہے
بڑی مدت سے آشفتہ امیدیں یاد کرتی ہیں
کہیں اس بزم میں یاروں دل مجبور دیکھا ہے
یہ دستورِ وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صدائے قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لختِ جگر کھانے سے ساغر بھوک مٹتی ہے
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے
شاعر
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment