ایک
نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام
اے غم دوراں ، غم دوراں تجھے میرا سلام
اے غم دوراں ، غم دوراں تجھے میرا سلام
زلف آوارہ گریباں چاک گھبرائی نظر
ان دنوں یہ ہےجہاں میں زندگی کا نظام
چند تارے ٹوٹ کر دامن میں میرے آ گرے
میں نے پوچھا تھا ستاروں سے ترے غم کا مقام
کہہ رہے ہیں چند بچھڑے رہرووں کے نقش پا
ہم کریں گے انقلاب جستجو کا اہتمام
پڑ گئیں پیراہن صبح چمن پر سلوٹیں
یاد آکر رہ گئی ہے بے خودی کی ایک شام
تیری عصمت ہو کہ ہو میرے ہنر کی چاندی
وقت کے بازار میں ہر چیز کے لگتے ہیں دام
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام
ـــــــــــ
ایک
وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
ــــــــــــــ
جانے
والے ہماری محفل سے
چاند تاروں کو ۔۔ ساتھ لیتا جا
چاند تاروں کو ۔۔ ساتھ لیتا جا
ہم خزاں سے نباہ کر لیں گے
تو بہاروں کو ۔۔ ساتھ لیتا جا
ــــــــــــــ
میری
بھیگی ہوئی پلکوں کی چھماچھم پہ نہ جا
تیرے ٹوٹے ہوئے پیماں پہ ہنسی آئی ہے
تیرے ٹوٹے ہوئے پیماں پہ ہنسی آئی ہے
ــــــــــــــ
بے
وجہ تو نہیں ہے چمن کی تباہیاں
کچه باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
کچه باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
ــــــــــــــ
چراغِ
طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جِن کے ہوتے ہَیں خُورشِید آستِینوں میں
اُنہیں کہِیں سے بُلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ــــــــــــــ
یاد
رکھنا ہماری تُربت کو قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
(ساغر صدیقی)
No comments:
Post a Comment