اتنے
نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
رخ- زیبا کی لطافت کو بڑھایا نہ کرو
رخ- زیبا کی لطافت کو بڑھایا نہ کرو
درد و آزار کا تم میرے مداوا نہ کرو
رہنے دو اپنی مسیحائی کا دعوی نہ کرو
حسن کے سامنے اظہار- تمنا نہ کرو
عشق اک راز ہے،اس راز کو افشا نہ کرو
اپنی محفل میں مجھے غور سے دیکھا نہ کرو
میں تماشا ہوں، مگر تم تو تماشا نہ کرو
ساری دنیا تمہیں کہہ دے گی تمہیں ہو قاتل
دیکھو،مجھ کو غلط انداز سے دیکھا نہ کرو
کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں بچھڑ جائیں گے
اتنی گہرائی سے ہر بات کو سوچا نہ کرو
تم پہ الزام نہ آ جائے سفر میں کوئی
راستہ کتنا ہی دشوار ہو، ٹھہرا نہ کرو
وہ کوئی شاخ ہو،مضراب ہو،بادل ہو عزیز
ٹوٹنے والی کسی شے کو بھروسا نہ کرو
(عزیز وارثی)
No comments:
Post a Comment