اک ستاروہ ٹوٹ کر معبود ظلمت بن گیا
اِک تجلی آئینے کے روبرو جلنے لگی
ساغر صدیقی
غرور ہستی نے مار ڈالا وگر نہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھوں کا نور ہو کر کسی کے دل کی قرار بن کر
ساغر صدیقی
مدحت بادہ انگور کی خاطر ساقی
رندا اِک ایماں سے اُلجھ بیٹھے
ساغر صدیقی
ہر قدم ساغر نظر آنے لگی ہیں منزلیں
مرحلے کچھ طے میری آوارگی سے ہوگئے
ساغر صدیقی
ساقیا ایک جام پینے سے
جنتیں لڑکھڑا کے ملتی ہیں
لالہ و گل کلام کرتے ہیں
رحمتیں مسکرا کے ملتی
ساغر صدیقی
بہت دنوں سے پریشاں ہیں آپ کے گیسو
بہت دنوں سے پریشاں ہے زندگی اپنی
ساغر صدیقی
جب بھی نعتِ حضور کہتا ہوں
زرے زرے کو طور کہتا ہوں
تشنگی اور یاد کربل کو
جام کیف و سرور کہتا ہوں
ساغر صدیقی
چھپائے دِل میں غموؐ کا جہاں بیٹے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے
ساغر صدیقی
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر ساغر
سرور و کیف کے دھاروں سے کھیل سکتا ہوں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment