دیوانہ بے خودی میں بڑی بات کہہ گیا
اِک حشر کی گھڑی کو ملاقات کہہ گیا
ساغر صدیقی
عظمت زندگی کو بیچ دیا
ہم نے اپنی خوشی کو بیچ دیا
چشم ساقی کے اک اشارے پر
عمر کی تشنگی کو بیچ دیا
ساغر صدیقی
معبودوں کے چراغ گُل کرو
قلب انسان میں اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
میں وہ آوارہ تقدیر ہوں یزداں کی قسم
لوگ دیوانہ سمجھ کر مجھے سمجھاتے ہیں
ساغر صدیقی
چشن تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں
دامنوں کا فروغ ہیں ہم لوگ
ساغر صدیقی
کچھ سرد سی آہیں ہیں تو کچھ ڈوبتے آنسو
ساغر یہ صلہ تجھ کو ملا سوز نوا کا
ساغر صدیقی
ہنس نہیں سکتے شگوفے تازگی سے روٹھ کر
ہم زمانے میں جیئے ہیں زندگی سے روٹھ کر
غم سے رونق ہوگئی کا شانہ تقدیر میں
مطمئن ہے دل کی دنیا ہر خوشی سے روٹھ کر
ساغر صدیقی
کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی
دنیا کے چھوڑ کام زرا آنکھ تو ملا
ساغر صدیقی
جگمگاتے ہوئے ستاروں کو
تیرے پاؤں کی دھول کہتا ہوں
اتفاقا تمہارے ملنے کو
زندگی کا حصول کہتا ہوں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment