س۔ کی
کہاوتیں
( ۲۳ ) سب دن چنگے،تہوار کے دن
ننگے :
فضول خرچ آدمی کو جب ضرورت پیش آتی ہے تو اس کے پاس کچھ
نہیں ہوتا اور اسے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ کہاوت کا محل استعمال معنی سے
ظاہر ہے۔
(۲۴) سب دھان بائیس
پنسیری :
کلو گرام سے پہلے تولنے کے لئے سیر استعمال ہوتا تھا۔ پانچ سیر کو
عوام پنسیری کہتے تھے۔ گویا کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اچھا
برا ہر طرح کا دھان ایک روپے کا بائیس پنسیری (۱۱۰ سیر) بک رہا ہے۔ اگر کسی میدان
عمل میں بھی اچھے برے کی تمیز اُٹھ جائے تو کہتے ہیں کہ’’ سب دھان
بائیس پنسیری بک رہا ہے‘‘۔
( ۲۵) سب کتے گئے کاشی تو
ہنڈیاکس نے چاٹی :
کاشی (بنارس)ہندوؤں کا متبرک شہر ہے۔یعنی جب شہر کے سارے کتے کاشی
تیرتھ کو چلے گئے تو آخر یہ ہنڈیا کون چٹ کر گیا؟ اگر کوئی کام خراب ہو جائے لیکن
ہر شخص اپنے آپ کو بے گناہ ظاہر کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۲۶) سچ تو یہ ہے کہ خوشامد
سے خدا راضی ہے :
ہر ایک کو اپنی خوشامد اچھی لگتی ہے۔ کہاوت میں عبادت کو خدا کی
خوشامد سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(۲۷) سر منڈاتے ہی اولے
پڑے :
ظاہر ہے کہ منڈے ہوے سر پر اولوں سے سخت چوٹ آئے گی۔
کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ابھی کام کی ابتدا ہی کی ہے اور طرح طرح کی مشکلات سامنے
آنے لگیں۔
(۲۸) سر ڈھکو تو پیر کھل جاتے
ہیں :
اگر سوتے وقت چادر سے سر
ڈھکیں تو پیر کھُلے رہ جائیں اور پیر ڈھکیں تو سر کھُلا رہ جائے
تو چادر یقیناً چھوٹی ہے۔ اسی مناسبت سے جب ایک مسئلہ حل کیجئے اور اس کے نتیجہ
میں دوسرا سامنے آ جائے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment