غ ۔ کی کہاوتیں
( ۱ ) غرور کا سر نیچا :
یعنی غرور کی ہمیشہ شکست ہوتی ہے۔
مغرور آدمی رعونت سے سر اونچا کر کے چلنے کا عادی ہوتا ہے۔کہاوت تنبیہ کر رہی ہے
کہ بالآخر یہ سر نیچا ہو جائے گا سو غرور سے احتراز بہتر ہے۔
( ۲ ) غرض نکلی آنکھ بدلی :
جب تک کسی سے غرض اٹکی ہو، آدمی اُس
سے عاجزی اور مصنوعی خوشدلی سے پیش آتا ہے۔ غرض پوری ہوتے ہی اُس کی نظر بدل جاتی
ہے۔ کہاوت انسان کی اسی خصلت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۳ ) غرض کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا
لیتے ہیں :
ہر
شخص اپنی غرض کا بندہ ہے اور اپنے مطلب کے لئے خراب سے خراب کام کرنے پر بھی آمادہ
ہو جاتا ہے۔ اس خود غرضی کو گدھے کو باپ بنانے کے ذ لیل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
( ۴) غریب کو ٹپکے کا ڈر بہت ہوتا
ہے :
مفلسی بری بلا ہے۔ غریب آدمی کو ہر
وقت ڈر رہتا ہے کہ بارش میں اس کی جھونپڑی ٹپکے گی اور اس کو بیٹھنے کے لئے
سوکھی زمین بھی نہیں ملے گی۔کہاوت کا مطلب ہے کہ کمزور آدمی کو ذرا ذرا سی بات کا
خوف ستاتا رہتا ہے۔
(۵) غریبی اور آٹا گیلا :
اگر کسی غریب آدمی کے پاس تھوڑا سا ہی
آٹا ہو اور گوندھتے وقت اُس میں ضرورت سے زیادہ پانی پڑ جائے تو
وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ گویا ایک تو ویسے ہی غریب تھا اَب اُس پر آٹا گیلا
ہونے کی وجہ سے روٹی سے بھی گیا۔ یہ کہاوت اُس وقت استعمال ہوتی ہے جب ایک مشکل سے
چھٹکارہ نہ ملے اور اس میں ایک اور مشکل پیدا ہو جائے۔
( ۶) غم نہ داری بُز بخر :
بُز یعنی بَکری۔ یعنی اگر تجھ کو کوئی غم نہیں
ہے تو ایک بکری خرید لے۔ بکری کی دیکھ بھال بظاہر آسان معلوم ہوتی ہے لیکن در اصل
بہت محنت اور وقت چاہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment