س۔ کی
کہاوتیں
(۲۹ ) سرائے کا کُتا ہر مسافر
کا یار :
پرانے زمانے میں مسافروں کے لئے راستہ میں جا بجا سرائے
بنی ہوتی تھیں جہاں وہ رات کو قیام کر لیتے تھے۔ سرائے کا کتا کھانے
کے لالچ میں ہرمسافر کے سامنے دُم ہلاتا گویا اپنی دوستی کا اظہار کرتا۔ جب
کوئی شخص مجبوری کی حالت میں ہر ایک کو پر اُمید نظروں سے دیکھے تو یہ
کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۳۰) سرخاب کا پر لگا
ہے :
سرخاب کا خوبصورت پَر لوگ پگڑی یا ٹوپی میں امتیاز
ظاہر کرنے کے لئے لگاتے ہیں۔ گویا سرخاب کا پر لگنا غیر معمولی خوبی کا
استعارہ ہے۔ یہ کہاوت عام طور سے طنزیہ کہی جاتی ہے کہ’’ اِن میں کون
سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے؟‘‘ یعنی ایسی کون سی غیر معمولی خصوصیت ہے جو اتنا
اِترا رہے ہیں ؟
(۳۱) سر کھجانے کی فرصت نہیں
ہے :
عدیم الفرصتی کا اظہار مقصود ہے کہ اتنی بھی فرصت نہیں کہ
سر کھجا لیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۳۲) سستا روئے بار بار،
مہنگا روئے ایک بار :
کوئی بھی چیز محض پیسے
بچانے کے لئے سستی سے سستی نہیں لینا چاہئے کیونکہ سستی چیز اکثر گھٹیا ہوتی
ہے اور بار بار مرمت اور توجہ چاہتی ہے۔ اچھی اور قیمتی چیز کار کردگی میں بہتر
ہوتی ہے اور جلدی خراب نہیں ہوتی۔
(۳۳) سفر نمونۂ سقر
:
سقر یعنی دوزخ یا جہنم۔ کہاوت سفر کو دوزخ کا نمونہ کہہ رہی ہے کیونکہ
سفرہمیشہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتا ہے۔
( ۳۴) سکھ کے سب ساتھی،دُکھ
میں نہ کوئے :
دُکھ میں بقول کسے آدمی کا سایہ تک اُس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ وقت
اچھا ہو تو دوست احباب سبھی گھیر ے رہتے ہیں۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
No comments:
Post a Comment