پ۔ کی کہاوتیں
( ۳۴)
پہلے لکھ اور پیچھے دے، پھر بھولے تو مجھ سے لے :
ہر
معاہدے کی باقاعدہ لکھا پڑھی ہونی چاہئے تاکہ غلط فہمی کا امکان ہی نہ رہے۔
چونکہ پیسہ کے لین دین میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس لئے یہاں اس کی مثال
دی گئی ہے۔
( ۳۵
) پہلے گھر میں ،پھر مسجد میں :
یعنی جب اپنی اور اعزا و اقربا کی ضروریات پوری ہو جائیں تب خیرات یا داد و دہش کا
رُخ باہر والوں کی جانب ہونا چاہئے۔
( ۳۶
) پھول باغ میں ہی خوب کھلتا ہے :
یعنی ہر چیز اپنی جگہ ہی اچھی لگتی ہے۔ پھول باغ
میں جتنا اچھا لگتا ہے اتنا گلدستہ میں نہیں لگتا۔
(۳۷)
پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان :
پِھٹ پڑے یعنی لعنت ہے اس پر۔ ایسا بھاری زیور کس کام کا جس سے کان کی لوئیں
پھٹ جائیں۔ کوئی بات بظاہر اچھی ہو لیکن اُس کے نتائج خوشگوار نہ ہوں
تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۳۸)
پھونک مارو تو اُڑ جائے :
بہت نازک و ناتواں شخص کو کہتے ہیں ۔
( ۳۹
) پِھر ہوا پھُر :
پِھر یعنی جو بات کل پر ٹال دی جائے۔ پھُر
یعنی جو چشم زدن میں اُڑ جائے۔ کل پر جو بات ٹال دی جائے وہ پوری نہیں
ہوتی کیونکہ کل تو کبھی آتا ہی نہیں ہے۔
( ۴۰
) پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے :
نہایت احتیاط کرتا ہے، ہوشیاری سے سوچ سمجھ کرکام کرتا ہے۔

No comments:
Post a Comment