پ۔ کی کہاوتیں
( ۲۸)
پنچ ملے کیجئے کاج، جیتے ہارے نہ آوے لاج :
پنچ
ملے یعنی آپس کے مشورے سے۔ آپس کی صلاح مشورے سے کام کیا جائے تو ناکامی کی حالت
میں کسی ایک شخص کو ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
( ۲۹
) پنچ کہیں بلّی تو بلّی ہی سہی :
پنچ
یعنی پنچایت کے اراکین۔اگر لوگوں کی اکثریت کسی بات پر متفق ہو جائے تو غلط
بات بھی سچ ہو جاتی ہے اور اس کو ماننا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک
شخص کے گھر میں رات کو چور گھس آیا اور کمرے میں چوری کرنے گیا۔ اس شخص کی
آنکھ کھل گئی اور اس نے چپکے سے کمرہ کی کنڈی باہر سے لگا دی کہ چور نکل کر
بھاگ نہ سکے۔ چور نے گھبرا کر اس اُمید پر بلی کی طرح طرح میاؤں میاؤں کہنا
شروع کیا کہ وہ شخص اسے بلی سمجھ کر دروازہ کھول دے گا اور وہ بھاگ نکلے گا۔لیکن
اُس شخص نے بلی کی آواز سن کر کہا کہ ’’پنچ کہیں بلّی تو بلّی ہی سہی‘‘ یعنی
صبح ہونے دو تو پنچوں کوب لا لوں گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ تو
بلّی ہی ہے تو میں مان کر تجھ کو چھوڑ دوں گا۔
(۳۰
) پوپلے سے ہڈی نہیں چبتی :
پوپلا یعنی
جس کے منھ میں دانت نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ کمزور شخص سے مشکل کام کی اُمید
فضول ہے۔
( ۳۱
) پوتڑوں کے امیر :
یعنی
پشتینی امیر، خاندانی امیر۔ پوتڑ۱بچپن کا استعارہ ہے یعنی کوئی آج کے امیر نہیں
ہیں۔
( ۳۲
) پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں :
پُوت یعنی بیٹا۔ پالنا یعنی جھولا۔ مطلب یہ ہے کہ بچہ کے مستقبل کے آثار شروع میں
ہی ظاہر ہو جاتے ہیں ۔
( ۳۳
) پہلے آؤ، پہلے پاؤ :
دُنیا میں جو پہلے اپنا حق مانگے اُس کو مل جاتا
ہے اور جو بعد میں آئے اس کو بعد میں ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں
ہے۔ کسی شاعر نے اس حقیقت کو کیا ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا
ہے ؎
یہ بزم مے
ہے،یاں کوتاہ دستی میں ہے
محرومی
جو بڑھ کر ہاتھ میں لے لے یہاں مینا اُسی کا ہے

No comments:
Post a Comment