ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب دیکھئے ٹھہرتی
ہے جا کر نظر کہاں
اُن کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی
صورت نہ وہ دیوار کی صورت ہے،
نہ در کی صورت
(الطاف حسین حالیؔ)
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی،اُٹھ کر چلے گئے
میں جاہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
(حیدر علی آتشؔ لکھنوی)
نہ چھیڑا ے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
٭
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
(سیدا نشاؔ)
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا ٭ دکھاتا ہے رنگ
آسماں کیسے کیسے
(لا اعلم)
جس طرح کی تان سنئے اک نرالا راگ
ہے ٭ شوقؔ
اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ ہے
(شوقؔ لکھنوی)
کھاتے تھے اپنی بھوک تو سوتے تھے اپنی
نیند ٭
مانا قفس میں تھے ہمیں کھٹکا تو کچھ
نہ تھا
وقت پیری شباب کی باتیں ٭ ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
(ریاضؔ خیر آبادی)
No comments:
Post a Comment