یہ دَورِ مے ہے،یاں کوتاہ دستی میں
ہے محرومی ٭
جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کاہے
(شادؔ عظیم آبادی)
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
مگر
٭
لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا
(لا اعلم)
گل پھینکے ہے اَوروں کی طرف بلکہ ثمر
بھی ٭ اے خانہ برا
نداز چمن کچھ تو ادھر بھی
کون ایسا ہے جسے دست ہو دلسازی
کا ٭ شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ
ہنر سے پیوند
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر ٭
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
(مرزا محمد رفیع سوداؔ)
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا ٭
کارواں کے دل سے احساس
زیاں جاتا رہا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی
ہے ٭
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے
پہلے ٭ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری
رضا کیا ہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر
گیا ٭ ورنہ گلشن میں
علاج تنگیِ داماں بھی تھا
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے
امیرؔ ٭ مقابلہ تو دل
ناتواں نے خوب کیا
(نواب محمد یار خاں امیرؔ)
No comments:
Post a Comment