ج۔کی
کہاوتیں
(۲۸) جس کے نام کا ظہورا،
اُسی کو گھاس کوڑا :
ظہورا یعنی شہرت و ناموری۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی وجہ سے کسی کام میں
ناموری اور شہرت حاصل ہو رہی ہے اس کی ہی کوئی وقعت اور عزت نہیں ہے۔
محل استعمال ظاہر ہے۔
(۲۹) جس نے کی شرم،ا ُس کے
پھوٹے کرم :
کہاوتوں میں کبھی کبھی الفاظ کا تلفظ بدل دیا جاتا ہے۔ جو لفظ
جیسا عوام میں رائج ہوتا ہے اسی طرح کہاوت میں بھی آتا ہے۔ یہاں
کرَم کی مناسبت سے شرَم (ر پر زبر کے ساتھ)کہا جائے گا۔
یعنی دُنیا ایسی بے فیض جگہ ہے کہ یہاں جو اپنا حق مانگنے میں
جھجھکتا ہے وہ عموماً خالی ہاتھ رہ جاتا ہے جب کہ منھ پھٹ اور بے شرم کو اس
کے حق سے زیادہ مل جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو شاعر نے یوں نظم کیا
ہے ؎
دَورِ مے ہے، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر ہاتھ میں لے لے یہاں مینا اُسی کا ہے یہ
( ۳۰) جس راہ نہیں چلنا
اُس کے کوس کیا گِننا :
کوس یعنی دو میل۔ جس راستہ
سفر ہی نہیں کرنا ہے اس کے کوس شمار کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
چنانچہ جو کام ہمیں کرنا ہی نہیں ہے اس کی تفصیلات جان کر کیا حاصل۔
( ۳۱ ) جس کی دُم اٹھا کر دیکھا وہ نَر نکلا :
اگر کسی نزاع میں دونوں فریق اپنی بات کی پخ
میں بضد ہو کر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہ ہوں تو یہ کہاوت کا
استعمال کی جاتی ہے کہ یہاں تو کسی مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
کیونکہ ہر شخص نَر ہے یعنی بر خود غلط اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے۔
( ۳۲) جس کے ہاتھ میں
ڈوئی، اُسی کے سب کوئی :
ڈوئی لکڑی کے بڑے چمچے کو کہتے ہیں۔ڈوئی کھانا پکانے والے کے ہاتھ میں
ہوتی ہے اور ہر شخص اسی کی جانب نظر اٹھائے رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو صاحب
اقتدار و اختیار ہوتا ہے اُسی سے لوگ اُمید رکھتے ہیں اور اُسی کے گُن گاتے
ہیں۔ کہاوت انسان کی فطری خود غرضی کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment