ج۔کی
کہاوتیں
( ۲۳) جس تھالی میں کھائیں
اُسی میں چھید کریں :
یعنی کسی کے احسان کا بدلہ اپنے محسن کو نقصان
یا دکھ پہنچا کر نہیں دینا چاہئے۔ ایسا کرنا جس تھالی میں کھا رہے ہوں
اُسی میں چھید کرنے کے برابر ہے۔
(۲۴) جس کی لاٹھی، اُس کی
بھینس :
بھینس کی ملکیت کے جھگڑے میں بھینس ہمیشہ
وہ شخص ہی لے جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے۔ یہ دُنیا طاقت کی دُنیا
ہے، کمزوروں کا یہاں گزر نہیں۔ اس کہاوت کے بارے میں ایک قصہ
مشہور ہے۔ایک شخص اپنی بھینس لئے جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ ایک چور اس کے
سامنے آ گیا اور لٹھ تان کر بھینس وہیں اس کے حوالے کر دینے کا حکم دیا۔ اُس
شخص نے ڈر کر بھینس کی رسّی چور کے حوالے کی اور گڑ گڑا کر بولا کہ ’’راستہ خطرناک
ہے۔ اگر اپنا لٹھ مجھ کو دے دو تو میں خیریت سے گھر چلا جاؤں۔‘‘ بے وقوف چور
نے لاٹھی اُس کو دے دی۔ لاٹھی لیتے ہی وہ شخص اُسے تان کر چور پر لپکا کہ ’’یہ
بھینس یہیں رکھ دے ورنہ تیرا سر پھاڑ دوں گا۔‘‘ چور نے گھبرا کر
بھینس اس کے مالک کے حوالے کر دی اور وہاں سے بھاگ لیا۔
(۲۵) جس کا کام اُسی کو ساجھے، دوسرا بولے
تو ڈنڈا باجے :
ساجھنا یعنی بھلا لگنا۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو
جس کام میں مہارت ہے وہی اس کو ٹھیک سے انجام دے سکتا ہے۔ کوئی دوسرا خواہ
مخواہ اس میں گھسے گا تو نقصان اٹھائے گا اور کا م بھی خراب ہو گا۔
( ۲۶ ) جس تن لاگے وہی جانے
:
تن یعنی جسم، لاگے سے مراد تکلیف یا چوٹ ہے۔
یعنی جس پر برا وقت آتا ہے و ہی اس کی زحمت کو خوب سمجھتا ہے۔باہر والوں کو
اس کا کم ہی علم ہوتا ہے۔
( ۲۷ ) جسے پیا چاہے وہی سہاگن
:
جو بیوی اپنے شوہر کی
چہیتی ہو گی وہی سہاگن کہلانے کی مستحق ہو گی۔ اسی پر دوسری۔صورتوں کو قیاس کیا جا
سکتا ہے جیسے استاد کا چہیتا شاگرد دوسرے شاگردوں کے لئے رشک کا باعث ہوتا
ہے۔
No comments:
Post a Comment