پردیس
میں جاتے سال کی آخری رات
جاتے
سال کی آخری شب ہے
چہل
چراغ کی روشنیوں سے
بادۂ
گلگلوں کی رنگت سے
جگر
جگر کرتے پیمانے
جیسے
جاتے سال کی گھڑیاں
پون
سے دیپ کی آخری قُربت
جیسے
دید کی آخری ساعت
جلتی
بُجھتی سی پھلجڑیاں
آؤ
آخری رات ہے سال کی
دل
کہتا ہے شوق وصال کی
سب
شمعیں ساری خوشبوئیں
تن من
میں رس بس جانے دو
دیکھو
آج کی رات ستارے
گُم
صُم ہیں آکاش کنارے
جاگ
رہے ہیں سوچ رہے ہیں
جاتے
سال کی آخری شب ہے
کل کا
سورج کیسا ہو گا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment