نذرِ نذرل
فنکار کو اپنے سحرِ فن سے
پتّھر کو زبان بخشتا ہے
الفاظ کو ڈھال کر صدا میں
آواز کو جان بخشتا ہے
تاریخ کو اپنا خون دے کر
تہذیب کو شان بخشتا ہے
فنکار خموش ہو تو جابر
ظلمت کے نشان کھولتا ہے
ہر اہلِ نظر کو دستِ قاتل
نیزے کی اَنی پہ تولتا ہے
انسان بزورِ خاک و خوں میں
انساں کے حقوق رولتا ہے
فنکار اگر زباں نہ کھولے
انبارِ گہر نصیب اُس کا
ورنہ ہر شہر یار دشمن
ہر شیخِ یار رقیب اُس کا
چاہے وہ فرازؔ ہو کہ نذرلؔ
بولے تو صلہ صلیب اُس کا
؎ نذرالسلام
٭٭٭
No comments:
Post a Comment