دیباچہ
یہ قصّہ پُرانا ہے
جب بعض ہونٹوں نے چاہا
کہ لفظوں کو آواز کی زندگی دیں
تو خود اُن کو زہراب پینا پڑ رہا تھا
کہ اہلِ حُکم کو یہ ڈر تھا
یہ الفاظ
آواز کی زندگی سے
کوئی داستاں بن نہ جائیں
۔۔۔ اور وہ ہونٹ چپ ہو گئے تھے
سسکتے تڑپتے ہُوئے لفظ
قاتل کی شمشیر سے نیم جاں
مدّتوں تک فراقِ صدا میں
دھڑکتے رہے ہیں
کسے کیا خبر تھی
کہ ان بسملوں کا لہو۔۔۔ قطرہ قطرہ
لکیروں کی صورت دمکتا رہے گا
اور اب یہ
لہو کی لکیریں
بجائے خود اک داستاں بن گئی ہے
No comments:
Post a Comment