ولی اللہ ولی ، سلطان عبداللہ قلی، قطب شاہوں کے
آٹھویں فرماں روا کے عہد میں 1668ءمیں اورنگ آ باد میں پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حصول
علم کے لیے احمد آباد آگئے۔ جو اس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں حضرت شاہ
وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ ولی کی عمر کا بیشتر حصہ احمد
آباد میں گزرا۔ اس شہر کے فراق میں انہوں نے ایک پردرد قطعہ بھی لکھا۔ ولی نے
گجرات ، سورت اور دہلی کا سفر بھی کیا۔ اس کے متعلق اشارے ان کے کلام میں موجود ہیں۔
دہلی میں ولی کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔
تو وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تمام مضامین کو جو
فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہیے، تاہم یہ بات
متنازع ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے (کتاب: اردو کا
ابتدائی زمانہ) کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین
تذکرہ نگار میر تقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ
کوئی خارجی آ کے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے۔ اس لیے سعداللہ گلشن والا واقعہ ایجاد
کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ
گلشن نے) ولی کو شاعری سکھائی تھی۔
فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخلاقی
باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔ جب بھی اردو غزل کی بات
ہوگی اولیت کا تاج ولی کے سر کی زینت بنے گا۔ وہ اردو غزل کا باوا آدم نہ سہی، غزل
کو نئے معانی اور نئے راستوں پر ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔
قائم چاند پوری نے اپنے تذکرے نکاتِ سخن میں
لکھا ہے کہ ولی نے سعد کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے
کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کی امراءکی محفلوں میں اور جلسوں اور
کوچہ و بازار میں ولی کے اشعار لوگوں کی زبان پر تھے۔
ولی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازع ہے۔ ڈاکٹر
جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ 1730 کے بعد فوت ہوئے، تاہم زیادہ تر محققین کا خیال
ہے کہ ولی 1708 کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔
No comments:
Post a Comment