Mazhar Jan Jaana
آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی تعلیم کے لئے نہایت
اہتمام فرمایا۔ ابتداء میں رسائل محاورہ فارسی اپنے والد ماجد سے پڑھے، کلام اللہ
شریف مع تجوید و قرأت قاری عبدالرحیم اور علم الحدیث و تفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی
شاگرد شِخ المحدیثین شیخ عبداللہ بن سالم مکی سے حاصل کی۔ ان علوم کے علاوہ میرزا
صاحب کو دیگر فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی، بالخصوص فن سپاہ گری میں آپ کو اس
قدر مہارت حاصل تھی، فرماتے تھے کہ اگر بیس آدمی تلواریں کھینچ کر مجھ پر حملہ کریں
اور میرے پاس ہاتھ میں صرف ایک لاٹھی ہو تو ایک آدمی بھی مجھے زخم نہیں پہنچا
سکتا۔ نیز فرماتے ہیں کہ ایک بار مست ہاتھی راہ میں آرہا تھا، میں گھوڑے پر سوار
سامنے سے آگیا۔ فیل بان نے شور مچایا کہ ہٹ جاؤ، دل نے گوارا نہیں کیا کہ ایک بے
جگر حیوان کے مقابلے سے ہٹ جاؤں۔ چنانچہ ہاتھی نے نہایت غضب کی حالت میں مجھے سونڈ
میں لپیٹ لیا۔ میں نے خنجر نکال کر اس کی سونڈ میں مارا، اس نے چیخ مارکر مجھے دور
پھینک دیا اور میں بفضل تعالٰیٰ محفوظ رہا۔
جانِ جاناں مشہور صوفی سلسلہ نقشبندیہ جو شیخ
الانوار سمر قند و بخارا بہاؤ الدین نقشبند کا قائم کردہ ہے ہندوستان میں اس سلسلہ
کے مشہور موئد مانے جاتے ہیں۔
میرزا صاحب فرماتے تھے کہ شور عشق و محبت اور
رغبت اتباع سنت میری طینت کے خمیر میں تھے۔ میں نو سال کا تھا کہ ابراہیم خلیل
اللہ کو خواب میں دیکھا کہ بکمال عنایت پیش آئے۔ ان ہی ایام میں جب کبھیصدیق اکبر
کا ذکر مبارک آتا تھا تو ان کی صورت مبارک میرے سامنے آجاتی تھی۔ میں نے بارہا ان
کو چشم ظاہر سے دیکھا اور اپنے حال پر بہت مہربان پایا۔ ایک مرتبہ آپ کے والد آپ
کو اپنے پیر شاہ عبدالرحمٰن قادری کی خدمت میں لے گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب
سے کرامتیں ظاہر ہوتی تھیں، مگر نماز میں تساہل فرمایا کرتے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ
مبادا میرے والد صاحب مجھے ان سے بیعت نہ کروادیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ
عبدالرحمٰن نماز میں تساہل کس لئے کرتے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا ان پر سکر غالب
ہے وہ معذور ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ادائے نماز میں سکر غالب ہوجاتا ہے، مگر دوسرے
امور میں ہوشیار رہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد صاحب خفا ہوگئے، مگر میرے دل سے بیعت
کرانے کا کھٹکا نکل گیا۔
میرزا مظہر کی عمر مبارک جب سولہ سال کی ہوئی
تو آپ کے والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔ والد کی وفات کے بعد آپ کے
رشتہ دار شاہی منصب کے حصول کے لئے مغل بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں لے گئے۔ اتفاق
سے بادشاہ کو عارضہ زکام تھا، وہ دربار میں نہیں آیا۔ اسی رات آپ نے خواب دیکھا کہ
ایک درویش نے اپنے مزار سے نکل کر اپنی کلاہ آپ کے سر پر رکھ دی۔ اس خواب کے بعد
منصب و جاہ کی رغبت آپ کے دل میں بالکل نہ رہی اور درویشوں کی زیارت کا شوق غالب
ہوا۔ جہاں کہیں کسی صاحب کمال کا نام سنتے اس کی زیارت کو تشریف لے جاتے۔
اٹھارہ سال کی عمر میں کچھ احباب سے سید نور
محمد بدایونی کے کمالات سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد فرمایا۔ میرزا مظہر
فرماتے ہیں کہ ” سید کے اوصاف حمیدہ سن کر میرا دل بے اختیار ان کی قدم بوسی کا
مشتاق ہوگیا۔ اگرچہ سید کی عادت مبارکہ تھی کہ بغیر استخارہ مسنونہ کے کسی کو تلقین
طریقہ نہ فرماتے تھے، مگر اس وقت بغیر درخواست کے مجھ سے فرمایا کہ آنکھیں بند
کرکے قلب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایک ہی توجہ میں میرے لطائف خمسہ کو ذاکر بناکر
رخصت کردیا۔ آپ کی توجہ کی تاثیر نے باطن کو ایسا متاثر کردیا کہ دوسرے روز صبح کو
جو میں نے سید کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور حسب عادت آتے وقت آئینے میں
اپنی صورت دیکھی تو بعینہ سید کی صورت پائی۔ اس سے محبت اور عقیدت اور زیادہ ہوگئی۔
بالجملہ چار سال آپ نے معاملہ کو ولایت علیا تک پہنچادیا اور مجھے اجازت معہ خرقہ
عنایت فرمائی۔“
سید نور محمد بدایونی کے وصال کے بعد میرزا
مظہر نے چھ برس تک سید کے مزار مقدس سے اقتباس انوار کا طریقہ اختیار کیا۔ بعد
ازاں سید نے بار بار خواب میں یہ تاکید کی کہ کمالات الٰہی بے نہایت ہیں، اپنی عمر
متناہی کو طلب میں صرف کرنا چاہیے۔ قبور سے استفادہ معمول نہیں، کسی زندہ بزرگ سے
مقامات قرب کی تحصیل کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں میرزا نے بزرگان
وقت کی طرف رجوع کیا۔ پہلے شاہ گلشن کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کے بعد محمد زبیر قیوم
رابع کی خدمت میں پہنچ کر فیضیاب ہوئے، پھر حاجی محمد افضل اورحافظ سعداللہ کی
خدمت اقدس میں سالوں رہ کر باطنی دولت سے مالامال ہوئے۔ آخر میں آپ نے محمد عابد
سنامی خلیفہ عبدالاحد سرہندی کی طرف رجوع فرمایا۔ عرصہ سات سال تک انکی توجہات کی
بدولت میرزا نے کمالات ثلاثہ و حقائق سبعہ وغیرہ ختم کئے۔میرزا کو محمد عابد سنامی
سے سلسلہ قادریہ کے علاوہ طریقہ چشتیہ اور سہروردیہ میں بھی اجازت ملی۔
میرزا پورے گیارہ سال محمد عابد کی خدمت میں
رہے۔ ان کی وفات کے بعد آپ نے مسند خلافت کو زینت بخشی۔ طالبانِ خدا نے ہر طرف سے
آپ کی طرف رجوع کیا۔ علماء و صلحاء کسب فیوض کے لئے آپ کی خانقاہ میں جمع ہوگئے
اور آپ کے کمالات کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ ابتدائے حال میں آپ کی توجہ کی تاثیر
سے لوگوں میں بے تابی پیدا ہوجاتی اور کمال استغراق کے سبب بیخود ہوجایا کرتے۔
طالبوں کی تہذیب نفوس جیسا کہ آپ کی خدمت میں ہوتی تھی، بزرگان سلف کے وقت میں کبھی
ہوتی ہوگی۔ مشائخ کرام آپ کی نسبت فرماتے تھے کہ جو فیض طالب خدا کو فقط آپ کی
صحبت سے پہنچتا تھا وہ دوسروں کی ہمت و توجہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک
شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرخواجہ میر درد کی زیارت کے لئے گیا۔ خواجہ نے دیکھتے
ہی فرمایا ”تم شاید میرزا کے مرید ہوگئے ہو کیونکہ تمہارا باطن نسبت مجددیہ کے
انوار سے معمور ہے۔“ اس نے عرض کیا کہ نہیں میں تو صرف ان کی خدمت میں حاضر ہوا
ہوں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے تھے اللہ تعالٰیٰ نے ہمیں کشف صحیح عطا کیا ہے کہ
روئے زمین کے تمام حالات ہم سے پوشیدہ نہیں، اور ہتھیلی کے خطوط کے مانند عیاں ہیں۔
اس وقت میرزا جان جاناں کا مثل کسی اقلیم و شہر میں نہیں ہے۔ جس شخص کو سلوک
مقامات کی آرزو ہو وہ ان کی خدمت میں جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے احباب نے حسب الامر
میرزا کی خدمت میں استفادہ کے لئے رجوع کیا۔
میرزا مظہرکی توجہ عالی اس پر مصروف تھی کہ
سلسلہ مجددیہ تمام عالم میں پھیل جائے اور اس طریقہ مجددیہ کی نسبتوں سے جہان منور
ہوجائے۔ چنانچہ ہزارہا آدمی آپ سے بیعت ہوکر دوام ذکر خدا میں مشغول ہوئے اور قریب
دو سو نیک نفوس آپ سے اجازت تعلیم ذکر پاکر خلق خدا کی ہدایت میں مشغول ہوئے۔ غرض
کہ میرزا تیس سال اپنے مشائخ کی خدمت میں کسب انوار و برکات کرکے نہایت کمال و تکمیل
کے مرتبہ پر پہنچ گئے اور 35سال طالبان خدا کی تلقین میں مشغول رہ کر نیک آثار
صفحہ روزگار پر چھوڑ گئے۔
میرزا کمال زہد و توکل سے متصف تھے اور دنیا
اور اہل دنیا کی کچھ پروا نہیں کرتے تھے اور دنیا داروں کے ہدئیے قبول نہ فرماتے۔
ایک دفعہ محمد شاہ مغل بادشاہ نے اپنے وزیر قمرالدین کی زبانی کہلا بھیجا کہ اللہ
تعالیٰ نے ہم کو ملک عطا فرمایا ہے، جس قدر دل مبارک میں آئے بطور ہدیہ قبول فرمائیں۔
آپ نے فرمایا کہ ارشاد باری تعالیٰ یوں ہے ”“ اللہ تعالٰیٰ نے ہفت اقلیم کو قلیل
فرمایا ہے، تمہارے پاس اس قلیل کا ساتواں حصہ یعنی ایک اقلیم ہندوستان ہے، اس میں
سے کیا قبول کروں۔
نواب نظام الملک نے تیس روپیہ بطور نیاز پیش کیا،
آپ نے قبول نہ فرمایا۔ نواب نے عرض کیا آپ راہ خدا میں تقسیم فرمادیں۔ فرمایا کہ میں
تمہارا خانساماں نہیں، یہاں سے تقسیم کرنا شروع کردو گھر تک ختم ہوجائے گا۔ فرماتے
تھے کہ اگرچہ ہدیہ کے رد کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس کے قبول کرنے کو واجب بھی
نہیں بتایا گیا۔ جو مال کہ یقینی طور پر حلال ہو اس کے لینے میں برکت ہے۔ فقیر
اپنے اصحاب کے ہدیئے جو اخلاص سے لاتے ہیں قبول کرلیتا ہے، امیروں کا مال اکثر
مشتبہ ہوتا ہے اور لوگوں کے حقوق اس سے متعلق ہوتے ہیں، قیامت کے دن اس کا حساب دینا
دشوار ہوگا۔
ایک دفعہ ایک امیر نے آموں کا ہدیہ آپ کی خدمت
میں بھیجا، آپ نے واپس کردیا۔ اس نے بڑی منت سماجت کے بعد دوبارہ بھیجے، آپ نے دو
آم رکھ لئے اور باقی واپس کردیئے اور فرمایا کہ فقیر کا دل اس ہدیہ کو قبول کرنے
سے انکار کرتا ہے۔ اسی وقت ایک باغبان آپ کی خدمت میں شکایت لایا کہ فلاں امیر نے
میرے آم ظلم سے لے لئے، ان میں سے کچھ آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں، میری مدد کیجئے۔
آپ نے فرمایا سبحان اللہ یہ ناعاقبت اندیش لوگ چھینے ہوئے ہدیوں سے فقیر کا باطن سیاہ
کرنا چاہتے ہیں۔
میرزا اپنے وقت میں دیگر مشائخ خاندان سے اس
امر میں ممتاز تھے کہ آپ کا کشف مقامات الٰہیہ صحیح و مطابق نفس الامر ہوتا تھا
اور طالبوں کو طریقہ مجددیہ کے مقامات کی غایت تک سلوک طے کراتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں
کو مقامات عالیہ کی بشارتیں دیا کرتے تھے، اس پر بعض افغانوں نے دل میں انکار کیا۔
آپ نے نور فراست سے دریافت کرکے فرمایا اگر تمہیں اعتبار نہیں تو گذشتہ اکابرین میں
سے کسی کو مقرر کرلو تاکہ اس کی روح ظاہر ہوکر ان بشارتوں کے صحیح ہونے کی شہادت
دے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر حضور سرور عالم ﷺ تصدیق فرمائیں تو یہ تصدیق معتبر ترین
ہے۔ چنانچہ آپ مع احباب کے ساتھ جناب پیغمبر خدا ﷺ کی روح مبارکہ پر فاتحہ پڑھ کر
متوجہ ہوکر بیٹھ گئے۔ حضورسرور کائنات ﷺ نے ظاہر ہوکر منکرین کی سرزنش فرمائی اور
فرمایا کہ میرزا صاحب کی بشارتیں سب صحیح ہیں۔
ایک روزایک فاحشہ عورت کی قبر پر مراقبہ میں بیٹھ
گئے۔ فرمایا کہ اس کی قبر میں دوزخ کی آگ شعلہ زن ہے اور وہ عورت شعلوں کے ساتھ
اوپر جاتی ہے اور نیچے آتی ہے۔ اس کے ایمان میں مجھے شک ہے مگر کلمہ طیبہ کا ختم
اس کی روح کو بخشتا ہوں، اگر ایمان کے ساتھ مری ہے تو بخشی جائے گی۔ چنانچہ کلمہ طیبہ
کے ختم کا ثواب پہنچاکر فرمایا کہ الحمدللہ ایمان کے ساتھ مری تھی، اس کلمہ کی
برکت سے عذاب سے نجات پاگئی۔ ایک بے ادب شخص نے حضرت کے مکشوفات سے انکار کرکے
بطور امتحان عرض کیا کہ یہ میرے ایک دوست کی قبر ہے، اس کا حال دریافت کیجئے۔ آپ
نے سکوت کے بعد فرمایا کہ جھوٹ نہ بول، یہ تو ایک عورت کی قبر ہے تمہارے دوست کی
قبر نہیں ہے۔ میرزا کے کشف و کرامات بہت ہیں۔ ہم نے یہاں صرف چند ایک نقل کردینے
پر اکتفا کیا ہے، کیونکہ حقیقی کرامت آقائے دوجہاں ﷺکی اتباع پر استقامت اور
طالبوں کو قرب خدا کے مراتب پر پہنچانا ہے۔ اور میرزاسے اس طرح کی کرامتوں کا ظہور
اظہر من الشمس ہے۔
جب میرزا مظہر کی عمر مبارک اسی (80) سال سے
تجاوز کرگئی تو آپ پر رفیق اعلیٰ کا شوق غالب ہوا۔ آپ نے اپنے ایک خلیفہ ملا نسیم
کو ان کے وطن رخصت کرتے وقت فرمایا کہ اس کے بعد ہماری تمہاری ملاقات معلوم نہیں
ہوتی۔ یہ سن کر آپ کے خدام بہت روئے۔ ایک روز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار میں
فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے فقیر کے دل میں کوئی ایسی آرزو نہیں چھوڑی
جو حاصل نہ ہوئی ہو، اس قادر مطلق نے فقیر کو اسلام حقیقی سے مشرف کیا، علم سے حصہ
وافر دیا، نیک عمل پر استقامت بخشی، لوازم طریقہ یعنی کشف و تصرف و کرامات عنایت
کئے، صالحین کو کسب فیض کے لئے بندہ کے پاس بھیجا، دنیا اور اہل دنیا سے علیٰحدہ
رکھا، اب صرف شہادت ظاہری کے کوئی آرزو باقی نہیں۔ فقیر کے اکثر بزرگ شہید ہوئے ہیں
مگر فقیر نہایت کمزور و ضعیف ہے اور قوت جہاد نہیں رکھتا، بظاہر اس مرتبہ کا حصول
مشکل ہے۔“ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردی اور آپ کو باطنی
شہادت کے ساتھ ساتھ ظاہری شہادت سے بھی سرفراز فرمایا۔ قصہ شہادت کچھ یوں ہے کہ
مغل بادشاہ شاہ عالم کے دور میں ایرانی شیعہ پارٹی نے اتنا عروج حاصل کیا کہ ایرانیوں
کے قائد نجف خاں کو دہلی کی مسند وزارت پر فائز کرنا پڑا۔ نجف خاں کے برسر اقتدار
آنے سے جہاں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے وہاں شیعہ سنّی جھگڑا بھی اپنے عروج کو
پہنچا۔ اس دور میں علماء اہل سنت کو خاصی پریشانی و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا،
بالخصوص دو فعال ترین شخصیتوں یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورمیرزا مظہر کی
خانقاہیں جو سنی طاقتوں کا مرکز تھیں، نجف خاں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں۔شاہ ولی
اللہ کی جائداد کو ضبط کرکے شاہ عبدالعزیز دہلوی اور شاہ رفیع الدین کو دہلی سے
پاپیادہ نکال دیا گیا۔ اب دہلی میں صرف مظہرکی ذات اقدس سنیوں کی داد رسی کے لئے
باقی رہ گئی۔ بالآخر آپ کو بھی راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
7 محرم 1195ھ کو جب کہ کچھ ہی رات گذری تھی،
چند آدمیوں نے مظہر کے دروازے پر دستک دی۔ خادم نے جاکر عرض کی کہ کچھ لوگ زیارت
کے لئے آئے ہیں۔ آپ کی اجازت سے تین آدمی اندر آئے، ان میں سے ایک ایرانی نژاد مغل
بھی تھا۔ آپ خوابگاہ سے نکل کر ان کے برابر کھڑے ہوگئے۔ مغل نے پوچھا کہ میرزا جان
جاناں آپ ہیں، پس اس پر بدبخت ایرانی مغل نے طبانچہ کی گولی داغ دی جو آپ کے دل کے
بائیں طرف لگی۔ آپ ناتوانی اور بڑھاپے کے باعث گر پڑے اور قاتل فرار ہوگئے۔ لوگوں
کو خبر ہوئی تو جراح کو بلایا گیا۔ صبح نجف خاں نے ایک جراح کو بھیجا اور کہا کہ
قاتل معلوم نہیں، اگر معلوم ہوگا تو قصاص جاری کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا اگر
ارادہ الٰہیہ میں شفا ہے تو بہرصورت ہوجائے گی، دوسرے جراح کی ضرورت نہیں، اگر
قاتل معلوم ہوجائے تو ہم نے معاف کیا تم بھی معاف کردینا۔ قاتلانہ حملہ کے بعد آپ
تین روز زندہ رہے۔ اس حالت میں اپنا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے
بناکردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت
کند ایں عاشقان پاک طینت را
غرض کہ دس محرم کو جسے شہادت کی رات کہا جاتا
ہے، آپنے تین بار زور زور سے سانس لیا اور واصل بحق ہوگئے۔
آپ کے خلیفہ ملا نسیم کی خانقاہ واقع نور محل
اوچ ریاست دیر صوبہ سرحد میں اب بھی وہ خون آلود کپڑے موجود ہیں جو آپ نے شہادت کے
وقت پہن رکھے تھے۔ اس کے علاوہ وہ خون آلود دھجیاں بھی محفوظ ہیں جن سے حضرت کا
خون پونچھا گیا تھا۔
آپ کی
تجہیز و تکفین آپ کی اہلیہ محترمہ کی نگرانی میں ہوئی۔ آپ کو بی بی صاحبہ کی حویلی
میں جو چتلی قبر دہلی سے متصل تھی دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار مبارک جس چبوترے پر ہے
اسی پر آپ کے ساتھ سلسلہ نقشبندیہ کی تین اور عظیم ہستیاں بھی محو خواب ہیں، یعنی
شاہ غلام علی، شاہ ابو سعید مجددی اور شاہ ابوالخیر مجددی ۔ خانقاہ کے موجودہ جانشین
مولانا زید ابوالحسن فاروق نے اس چبوترے پر 1980ء میں ایک شاندار گنبذ تعمیر کروایا
ہے۔
No comments:
Post a Comment