حال دل کا آشکارا ہو گیا
یہ ہمارا تھا تُمھارا ہو گیا
راہ سے لیلی
کی جو ذرہ اُٹھا
آنکھ کا
مجنوں کی تارا ہو گیا
آتے آتے پھر
گئے وہ راہ سے
بخت بر گشتہ
ہمارا ہو گیا
مل گئی
کوچے میں اُس کے کُچھ جگہ
بیٹھ رہنے
کا سہارا ہو گیا
اشک پی کر
رنج کھا کر ہجر میں
ہو گیا جوں
توں گزارا ہو گیا
باعثِ شہرت
ہمارا عشق ہے
نام دُنیا
میں تُمہارا ہو گیا
جب ستم اس
نے کیا انداز سے
وہ ستمگر
مجھ کو پیارا ہو گیا
ہجر میں ہے
یہ شرابِ خوشگوار
زہر کھانا
ہی گوارا ہو گیا
چھُپ سکے
رازِ محبت کس طرح
چھُپتے
چھُپتے آشکارا ہو گیا
پہلے ناصح
کا سخن تھا نا گوار
رفتہ رفتہ
پھر گوارا ہو گیا
گرچہ وہ
جھوٹی تسلی دے گئے
مجھ کو جینے
کا سہارا ہو گیا
آئے کیا
دُنیا میں ہم کیا سیر کی
چلتے پھرتے
اِک نظارا ہو گیا
داغ اترائے
ہوئے پھرتے ہو تُم
کیا ملاپ اُن کا تُمھارا ہو گیا
No comments:
Post a Comment