فتنہ
حشر اور کیا نکلا
وہ
تُمھارے ہی ساتھ کا نکلا
کون
دُنیا میں با وفا نکلا
یہ
تُمہاری زُبان سے کیا نکلا
وہ ادھر
بھول کر جو آ نکلا
میں نے
جانا کہ مد عا نکلا
بت کدہ
دیکھ کر ہوئی عبرت
میرے
مُنہ سے خدا خدا نکلا
درہمِ
داغ دل میں ہیں موجود
یہ
خزانہ بھرا پُرا نکلا
اُس نے
کی مجھ پر انتہا کی جفا
جور
کرنے کا حوصلہ نکلا
جان
نکلی مریضِ فرقت کی
اب تو
ارمان آپ کا نکلا
غیر کے
ہاتھ میں تھا وہ ہرجائی
بعد مدت
کے یہ پتا نکلا
اب دماغ
اُن کا آسماں پر ہے
کیوں
مرے مُنہ سے مدعا نکلا
غیر سے
اُن سے عشق باہم ہے
درمیاں
سے قدم مرا نکلا
ستیاناس
ہو ترا اے دل
تو
ہمارے نہ کام کا نکلا
پھر بھی
اچھا کہو گے غیر کو تم
امتحاں
میں اگر بُرا نکلا
میں نے
چھوڑا نہ جب انھیں تو کہا
یہ تو
ظالم بُری بلا نکلا
داغ کو
لوگ رند کہتے ہیں
وہ حقیقت میں پارسا نکلا
No comments:
Post a Comment