صحت سے
ہائے دردِ دل زار کیا ہوا
بیمار
کو یہ غم ہے وہ آزار کیا ہوا
کیوں
پھر گئی تجھے نگہِ یار کیا ہوا
مجھ پر
اگر ہوا بھی تو اِک وار کیا ہوا
ہم
بیچتے تھے دل کو جس انداز کے لیے
کیا
جانئے وہ ناز، خریدار کیا ہوا
وہ دل
کہاں وہ قید تعلق کہاں رہی
وہ دام
کیا ہوا وہ گرفتار کیا ہوا
یاروں
نے پیشتر تو نہ کی میری روک تھام
اب
پوچھتے ہیں تجھ کو مرے یار کیا ہوا
لاکھوں
بندھے ہیں وہم اک آفت میں آ گیا
میں
تیرے دل کا محرمِ اسرار کیا ہوا
اچھا ہے
اور جلوہ دکھاؤ نہ کوئی دن
پھر یہ
کہو گے طالب دیدار کیا ہوا
نکلے جو
سیر کو تو قیامت بپا ہوئی
تم کو
خبر بھی ہے دمِ رفتار کیا ہوا
کس کی
خبر گئی جو پریشان ہو گئے
گھبرا
کے پوچھتے ہیں وہ ہر بار کیا ہوا
آغازِ
عشق ہی میں ہوا انجام کا لحاظ
پچھتا
کے گو ہوا تو خبردار کیا ہوا
وہ اور
آئیں تیری عیادت کے واسطے
سودا
تجھے یہ اے دلِ بیمار کیا ہوا
وہ ساتھ
غیر کے مرے ہمسائے میں رہے
اے
آسماں بتا پسِ دیوار کیا ہوا
اے
انقلابِ دہر وہ جلسے کہاں گئے
وہ بزمِ
عیش اور وہ دربار کیا ہوا
لے
جائیں گے مجھے جو فرشتے عذاب کے
رحمت
کہے گی لاؤ گنہگار کیا ہوا
اُس کے
ہی دم کے ساتھ یہ ناز و نیاز ہے
پھر یہ
کہو گے داغ وفادار کیا ہوا
No comments:
Post a Comment