نہ کیا
تم نے امتحانِ رقیب
ورنہ
بچتی کبھی نہ جانِ رقیب
چار
چاند آپ نے لگائے اُسے
چوگنی
اب نہ کیوں ہو شانِ رقیب
اُس کی
تعریف نے کیا بد ظن
دوست پر
ہے مجھے گمانِ رقیب
تم نے
گھر میں کہاں چھُپا رکھا
نہیں
ملتا کہیں نِشانِ رقیب
کاٹ
کرتا ہے وہ مری تم سے
کاٹ
ڈالوں گا میں زُبانِ رقیب
کس کے
کہنے پر آپ جاتے ہیں
ہے
غلط سر بسر بیانِ رقیب
ڈھونڈتے
ہو گلی گلی کس کو
میں بتا
دوں تُمھیں مکانِ رقیب
تُم سے
کیا بات کی سرِ محفل
میں نہ
سمجھا یہ چیستانِ رقیب
اُن کے
لب پر ہیں سککڑوں دُشنام
میرے لب
پر ہے داستانِ رقیب
اُس کی
خوبی سے میں نہیں واقف
آپ ہی
ہیں مزاج دانِ رقیب
جھُوٹ
کیوں بولتا ہے تو مجھ سے
کیا ترے
منہ میں ہے زُبانِ رقیب
نالہ
میرا ہے تیر دُشمن کو
آہ میری
بلائے جانِ رقیب
اپنی
غیرت کو دیکھ اُس کو دیکھ
تو ہو
راتوں کو مہمانِ رقیب
تُم
بُلاؤ، وہ آئے ، کیوں آئے؟
اِس میں
ہوتی ہے کسرِ شانِ رقیب
داغ اِس
نام سے وہ ہیں مشہور
اُن کو کہتے ہیں مہربانِ رقیب
No comments:
Post a Comment