اِس دل
کو کہا اُس نے یہ خوشحال نہ نکلا
ہم جس
کے خریدار تھے وہ مال نہ نکلا
اُٹھ کر
جو اُسے فتنہ محشر بھی اُٹھائے
ایسا تو
کوئی آپ کا پامال نہ نکلا
اک آن
میں خم زلف کا شانے نے نکالا
قسمت کا
مری پیج کئی سال نہ نکلا
بیکار
نہیں حُسن کے دریا میں تری زلف
بے صید
لئے بحر سے یہ جال نہ نکلا
آئے تھے
عیادت کے لیے غیر کو لے کر
پچھتائے
وہ میرا جو برا حال نہ نکلا
ہم
اخترِ تاباں سے شبِ وصل ملاتے
اُس
روئے منور پہ کوئی خال نہ نکلا
ہم عشق
کو سمجھے تھے کہ لڑکوں کا ہے اک کھیل
یہ کھیل
تو بازیچۂ اطفال نہ نکلا
دل چوٹ
جو کھاتا ہے تو رہتا نہیں ثابت
اس شیشہ
میں جس وقت پڑا بال نہ نکلا
جو پیچ
ازل کے ہوں نکلتے نہیں ہرگز
سیدھا
تری زلفوں کا کوئی بال نہ نکلا
میں
داورِ محشر سے یہ پوچھوں گا الٰہی
کیا کچھ
بھی غلط نامۂ اعمال نہ نکلا
در پردہ
عتاب آٹھ پہر ہم پہ ہوئے ہیں
پردے سے
ترا چہرہ کبھی لال نہ نکلا
پُہنچا
ہوں مجازی سے حقیقت کو بھی لیکن
کب عشق
مری جان کا جنجال نہ نکلا
وہ اس
لئے آئے تھے کہ ہم داغ کو لوٹیں
ہر چند ٹٹولا کئے، کچھ مال نہ نکلا
No comments:
Post a Comment