لب
پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے
رنگِ
خونِ دل نہیں چمکا گردش میں پیمانہ ہے
مٹ
بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اس
کو یہاں سے کون نکالے یہ تو صاحبِ خانہ ہے
ایسی
باتیں اور سے جا کر کہیے تو کچھ بات بھی ہے
اُس
سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے
طور
اطوار انوکھے اس کے کس بستی سے آیا ہے
پاؤں
میں لغزش کوئی نہیں ہے یہ کیسا مستانہ ہے
مے
خانے کی جھل مل کرتی شمعیں دل میں کہتی ہیں
ہم
وہ رند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment