جامۂ
مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامن تر
کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا
دیر میں
کعبے گیا میں خانقہ سے اب کی بار
راہ سے
میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا
بلبلوں
نے کیا گل افشاں میرؔ کا مرقد کیا
دور سے
آیا نظر تو پھولوں کا اک ڈھیر تھا
شب کو
القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا
نابلد
ہو کے رہ عشق میں پہنچوں تو کہیں
ہمرہ
خضر کو یاں کہتے ہیں گمراہ سنا
کوئی ان
طوروں سے گذرے ہے ترے غم میں مری
گاہ تو
نے نہ سنا حال مرا گاہ سنا
خواب
غفلت میں ہیں یاں سب تو عبث جاگا میرؔ
بے خبر دیکھا انھیں میں جنھیں آگاہ سنا
No comments:
Post a Comment