ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے
جوتوں کی جوڑی سے
یا قبر سے جو بارشوں میں بیٹھ گئی
یا اس پھول سے جو قبر کی پائنتی پر
کھِلا
ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی
چیونٹیوں کو جائے نماز کے نیچے
اور لڑکیوں کو میری آواز میں
مُردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر
بنا لیا ہے
نظم کا بھی ایک گھر ہو گا
کسی جلا وطن کا دل یا انتظار کرتی ہوئی
آنکھیں
ایک پہیہ ہے جو بنانے والے سے ادھورا رہ
گیا ہے
اسے ایک نظم مکمل کر سکتی ہے
ایک گونجتا ہوا آسمان نظم کے لیے کافی
نہیں
لیکن یہ اک ناشتے دان میں بہ آسانی سما
سکتی ہے
پھول، آنسو اور گھنٹیاں اس میں پروئی جا
سکتی ہیں
اسے اندھیرے میں گایا جا سکتا ہے
تہواروں کی دھوپ میں سکھایا جا سکتا ہے
تم اسے دیکھ سکتی ہو
خالی برتنوں، خالی قمیضوں اور خالی
گہواروں میں
تم اسے سن سکتی ہو
ہاتھ گاڑیوں اور جنازوں کے ساتھ چلتے
ہوے
تم اسے چوم سکتی ہو
بندرگاہوں کی بھیڑ میں
تم اسے گوندھ سکتی ہو
پتھر کی ناند میں
تم اسے اُگا سکتی ہو
پودینے کی کیاریوں میں
٭٭٭
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment