زمین
سے وابستہ کچھ دلچسپ باتیں
ہماری زمین گلیکسی کا سب سے منفرد سیارہ ہے جہاں ہم بستے
ہیں اس زمین سے وابستہ کچھ دلچسپ حقائق بھی ہیں۔ ہمارے سائنسدان کئی صدیوں سے زمین
پر تحقیق کرتے چلے آرہے ہیں جس کے نتیجے میں آئے روز کوئی نہ کوئی نیا انکشاف
سامنے آتا ہے.
1.زمین پر پائے جانے والے 90 فیصد آتش فشاں
سمندر کے نیچے پائے جاتے ہیں.
۔2. زمین پر موجود سب سے خشک ترین مقام
انٹارٹیکا کی ڈرائی ویلی ہے جہاں پر گزشتہ 2 ملین سالوں سے بارش نہیں ہوئی.
۔ 3.سائنس دانوں کے مطابق ننانوےفیصد سونا زمین
کے مرکز میں پایا جاتا ہے- جہاں ہمارے رسائی فی الحال
ناممکن ہے۔ ہاں حدیث کے
مطابق قیامت سے پہلے یہ زمین اپنے خزانے اگل دے گی۔
4. زمین نظامِ شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جو
tectonics پلیٹس کے ساتھ موجود ہے- سائنس دانوں کے مطابق
اگر یہ پلیٹس نہ ہوتیں تو زمین انتہائی
.گرم ہوتی۔ جیسے کہ وینس سیارہ جس میں یہ
پلیٹس موجود نہیں
5. زمین پر پایا جانے والا ستانوے فیصد پانی
نمکین ہے- جو کہ پینے کے قابل نہیں۔
6.باقی بچ جانے والے 3 فیصد پانی کے حصے میں
سے دو تہائی حصہ برفانی چوٹیوں سے ڈھکا ہوا ہے
7. اس کے بعد بچ جانے والا زیادہ تر پانی زمین
سے اس حد تک نیچے ہے کہ وہاں تک رسائی ناممکن ہے- تو معلوم ہوا کہ زمین پر پایا
جانا والا پینے کے قابل پانی نہایت ہی کم ہے۔ پھر بھی اللہ تعالی ہمیں ہماری ضرورت
کے مطابق پینے کا پانی عطاء کررہا ہے۔ اس نعمت پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا
چاہیئے۔
۔8. اگر زمین کے مدار سے باہر نکل کر دیکھا
جائے تو سب سے زیادہ چمکنے والا سیارہ زمین ہی ہے کیونکہ سورج کی روشنی زمین پر
پائے جانے والے پانی پر جب پڑتی ہے تو یہ سیارہ نہایت ہی روشن نظر آتا ہے۔
زمین کی دور سے کھینچی جانے والی تصویر کا
فاصلہ 3.7 بلین میل تھا- اور اس تصویر کو The Pale Blue 9. Dot کہا جاتا ہے-
10. اوزون کا سوراخ سکڑ رہا ہے اور 2012 میں
گزشتہ دہائی کے مقابلے میں یہ سوراخ مزید چھوٹا ہوگیا تھا-
دنیا کا نوے فیصد کچرا سمندر میں پایا جاتا ہے اور
وہ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے11.
زمین پر موجود 95 فیصد سمندری علاقہ تاحال غیر
دریافت شدہ ہے12.
13. ہماری گلیکسی میں یہ واحد سیارہ ہے جہاں 21 فیصد
آکسیجن موجود ہے۔
14. اسی طرح زمین ہی واحد سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے۔
15. اسی طرح گلیکسی میں یہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی کا
وجود ہے۔
16. ہماری زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے۔ جبکہ سائنس دانوں
کے مطابق ہماری گلیکسی میں کم از کم 27 چاند اور بھی ہیں۔
17. تکنیکی اعتبار سے ایک دن میں 24 گھنٹے نہیں
ہوتے۔ کیونکہ سورج زمین کے گرد اپنا چکر پورا کرنے میں 23 گھنٹے 56 منٹ اور 4
سیکنڈ لگاتا ہے۔ (یہاں میں نے سورج کی گردش کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اسلامی نقطہ نظر
سے سورج کی حرکت کی وجہ سے ہی دن رات گرمی سردی کا ظہور ہوتا ہے۔ نہ کہ زمین کی
حرکت کی وجہ سے۔ زمین کی حرکت کا نظریہ سب سے پہلے گلیلیو گلیلی نے 1615ء میں پیش
کیا۔جس پر اس وقت کے بہت سے لوگوں نے اعتراض بھی کیاتھا۔ اور آج تک اعتراضات
موجود ہیں۔ کیونکہ یہ نظریہ بائیبل کے سراسر خلاف تھا۔ اور اس نظریے کے گھڑنے کی
وجہ سے چرچ نے اس سائنس دان کو بہت سخت سزائیں بھی تھیں۔ لیکن بعد میں اسی نظریے
کو سائنس دانوں نے قبول کرلیا ۔جو آج تک قائم ہے۔یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین
کی حرکت کا نظریہ 1615ء سے پہلے کسی نے بھی باقاعدہ طور پر پیش نہیں کیاتھا۔ صحابہ
میں سے حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم
کے سامنے بھی جب یہ مسلہ پیش ہوا کہ حضرت کعب کہتے ہیں کہ آسمان گھوم رہا ہے تو
انہوں نے کہا کعب نے جھوٹ بولا اور قرآن پاک کی وہ آیت پڑھی جس میں ذکر ہے کہ
آسمان اور زمین کو اللہ روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں۔یعنی مسلہ آسمان کی حرکت
کے بارے پوچھا جارہا تھا۔ اور آپ دونوں حضرات نے فرمایا کہ نہ آسمان حرکت کرتا
ہے اور نہ ہی زمین۔ بہرحال اس پر میں پوسٹ کرچکا ہوں۔ اس میں قرآن پاک اور تفاسیر
کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ زمین حرکت نہیں کرتی۔)
18. سائنس دانوں کے نظریے کے مطابق زمین دوطرح
سے گھوم رہی ہے ۔اپنےگرد اور سورج کےگرد ۔اپنے گرد465.1 میڑ فی سکینڈ (یا 1674.4
کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے گھوم رہی ہے ۔ اور سورج کے گرد 29.8 کلو میڑ فی
سکینڈ (یا 107300کلومیٹر فی گھنٹہ) کی انتہائی تیز سپیڈ سے گھوم رہی ہے۔ یہ بات
بھی عقل کے ترازو پر پوری اترتی نظر نہیں آتی۔ بہت سے ناقدین اس نظریہ پر بھی
اعترضات کرتے آئے ہیں۔ جیسے بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اگر زمین واقعی تقریبا 30
کلومیٹر فی سکینڈ کی انتہائی تیزرفتاری سے گھوم رہی ہے تو پرندےہوا میں اڑنے کے
بعد اپنی جگہ پر کیسے واپس آسکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
ذہن میں رہے کہ آج کے دور میں بھی زمین کی حرکت کے متعلق
سائنس دانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو آپ انٹرنیٹ پر سرچ کرسکتے ہیں۔
مجھے تو کشش ثقل اور بیگ بینگ تھیوری میں بھی کوئی وزن
دیکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ ان کو بھی کسی سائنٹیفک طریقے سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔
اب سنا ہے کہ ایک پاکستانی نژاد خاتون نے کشش ثقل (گرویٹی) کی لہروں کو ڈھونڈ لیا
ہے۔ جس کو میڈیا نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ یہ تو کچھ عرصہ بعد مزید سائنس دانوں
کی تحقیق سے ہی بات واضح ہوگی۔ کیونکہ انٹرنیٹ پر کئی مضامین موجود ہیں جن میں بعض
ناقدین گرویٹی کی موجودگی کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment