الحاج الرّاشی
اِبنِ مُنیب
اکرم
خان کے مرنے میں پندرہ سیکنڈ باقی تھے۔
رات کے اِس پہر اُس کی آنکھ اپنے بستر کے قریب
ہونے والی سرگوشی سے کھُلی تھی۔ روشندان سے جھانکتی ہوئی چاند کی مدھم روشنی میں
وہ صرف اتنا دیکھ پایا تھا کہ کچھ اجنبی اُس کے بستر کی طرف پشت کیے کسی بحث میں
مشغول ہیں۔ تاریکی، اور بڑھاپے میں نظر کی کمزوری اُسے اجازت نہیں دے رہی تھیں کہ
وہ اُن کے کچھ خدوخال جان سکے۔ بس اتنا سمجھ پایا کہ وہ سر تا پیر لمبے سیاہ چوغوں
میں ملبوس ہیں اور وہی اُس کی آنکھ کھلنے کا سبب ہیں۔ ایک عجیب سا خوف اُس کے
کمزور جسم میں سردی کی لہر کی طرح دوڑ گیا۔ مگر نہ جانے کیوں وہ کچھ بولے بغیر
آنکھیں زور سے بند کر کے اُن کی گفتگو سننے لگا۔
"اِس
روح پر مہر الحاج کی لگے گی”
ایک بولا۔
"ہرگز
نہیں، اِس پر مہر الراشی کی ہی لگے گی”
دوسرے نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا۔
"اِسے
لوگ الحاج کہہ کر بلاتے تھے”
تیسرا سمجھانے لگا۔
"اور
پیٹھ پیچھے الراشی کے نام سے یاد کرتے تھے”
چوتھے نے دوسرے کا ساتھ دیا۔
"مگر
یہ ہر سال حج کرتا تھا”
پہلا اپنی بات پر قائم رہا۔
"اور
سارا سال رشوت کے لین دین سے اپنا کاروبار بڑھاتا تھا”
دوسرے نے جواب دیا۔
"دیکھو،
یہ کعبے کا دروازہ تھام کر دعائیں مانگتا تھا”
تیسرا بولا۔
” اور
جن لوگوں کے حق اِس نے رشوت کے زور پر مارے اُن کے بھوکے بیمار بچے اپنی ماؤں کے
دامن تھام کر روتے تھے۔ ”
چوتھے نے فورا جواب دیا۔
"تو
پھر اِس کا کیا حل ہے؟”
پہلے نے سوال کیا۔
"اِس
صورت میں حل تو ایک ہی ہے!”
دوسرا بولا۔
"یونہی
کر لیتے ہیں پھر!”
سب نے تائید میں سر ہلایا اور خاموشی سے اکرم خان
کی جانب مڑے۔
کہتے ہیں کہ موت سے بالکل پہلے انسان کی پوری
زندگی اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ہر چہرہ، ہر منظر، ہر لمحہ، آخری اُس
ثانیے میں کسی دیکھی ہوئی فلم کی طرح تیزی سے ‘رِی-پلے’ ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہو
یا غلط، مگر اکرم خان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ زندگی کے اِس آخری لمحے میں اُس
کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی منظر تھا۔ ہزاروں جُڑے ہوئے ہاتھ، زرد چہرے، اور لاغر
بدن اُس کے بستر کا طواف کر رہے تھے۔ ہر طرف ایک شور برپا تھا
"الحاج
الراشی، الحاج الراشی، الحاج الراشی”۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment