غصے سے اٹھ
چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے
ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں
کہ پھر آباد ہوسکے
پچھتاؤ گے سنو
ہو یہ بستی اجاڑ کر
یارب رہ طلب میں
کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کہ بیٹھ
رہوں پاؤں گاڑ کر
منظور ہو نہ
پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج
دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر
غالب کہ دیوے
قوت دل اس ضعیف کو
تنکے کو جو
دکھا دے ہے پل میں پہاڑ کر
نکلیں گے کام
دل کے کچھ اب اہل ریش سے
کچھ ڈھیر کر
چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر
اس فن کے
پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میرؔ
پر ہوسکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر
وہ تنگ پوش اک دن دامن کشاں گیا تھا
رکھی ہیں جا نمازیں اہل ورع نے تہ کر
کیا قصر دل کی تم سے ویرانی نقل کریے
ہو ہو گئے ہیں ٹیلے سارے مکان ڈھہ کر
ہم اپنی آنکھوں کب تک یہ رنگ عشق دیکھیں
آنے لگا ہے لوہو رخسار پر تو بہ کر
رنگ شکستہ اپنا بے لطف بھی نہیں ہے
یاں کی تو صبح دیکھے اک آدھ رات رہ کر
برسوں عذاب دیکھے قرنوں تعب اٹھائے
یہ دل حزیں ہوا ہے کیا کیا جفائیں سہ کر
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا
اسرار عاشقی کا پچھتائے یار کہہ کر
طاعت کوئی کرے ہے جب ابر زور جھومے
گر ہوسکے تو زاہد اس وقت میں گنہ کر
کیوں تو نے آخر آخر اس وقت منھ دکھایا
دی جان میرؔ نے جو حسرت سے اک نگہ کر
No comments:
Post a Comment