آزار دیکھے کیا کیا ان پلکوں سے اٹک کر
جی لے گئے یہ کانٹے دل میں کھٹک کھٹک کر
سرو و تدرو دونوں پھر آپ میں نہ آئے
گلزار میں چلا تھا وہ شوخ ٹک لٹک کر
کب آنکھ کھول دیکھا تیرے تئیں سرہانے
ناچار مر گئے ہم سر کو پٹک پٹک کر
حاصل بجز کدورت اس خاکداں سے کیا ہے
خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر
یہ مشت خاک یعنی انسان ہی ہے روکش
ورنہ اٹھائی کن نے اس آسماں کی ٹکر
دل کام چاہتا ہے اب اس کے گیسوؤں سے
واں مر گئے ہیں کتنے برسوں اٹک اٹک کر
ٹک منھ سے اس کے دی شب برقع سرک گیا تھا
جاتی رہی نظر سے مہتاب سی چھٹک کر
دھولا چکے تھے مل کر کل لونڈے میکدے کے
پر سرگراں ہو واعظ جاتا رہا سٹک کر
کل رقص شیخ مطلق دل کو لگا نہ میرے
آیا وہ حیز شرعی کتنا مٹک مٹک کر
منزل کی میرؔ اس کی کب راہ تجھ سے نکلے
یاں خضر سے ہزاروں مر مر گئے بھٹک کر
No comments:
Post a Comment