گئے تھے سیر چمن کو اٹھ کر گلوں میں ٹک جی لگا
نہ اپنا
تلاش جوش بہار میں کی نگار گلشن میں تھا نہ اپنا
ملا تو تھا وہ بخواہش دل مزہ بھی پاتے ملے سے لیکن
پھریں جو مستی میں اس کی آنکھیں سو ہوش ہم کو
رہا نہ اپنا
جہاں کا دریائے بیکراں تو سراب پایان کار نکلا
جو لوگ تہ سے کچھ آشنا تھے انھوں نے لب تر کیا
نہ اپنا
نکالی سرکش نے چال ایسی کہ دیکھ حیرت سے رہ گئے
ہم
دلوں میں کیا کیا ہمارے آیا کریں سو کیا بس چلا
نہ اپنا
کہے بھی کوئی تو اس سے جس میں سخن کسو کا اثر
کرے کچھ
بکا کیے ہم ہمیشہ مانا کسو دن ان نے کہا نہ اپنا
نہ ہوش ہم کو نہ صبر دل کو نہ شور سر میں نہ زور
پا میں
جو روویں کس کس کو روویں اب ہم وفا میں کیا کیا
گیا نہ اپنا
جہاں میں رہنے کو جی بہت تھا نہ کرسکے میرؔ کچھ
توقف
بنا تھی ناپائدار اس کی اسی سے رہنا بنا نہ اپنا
No comments:
Post a Comment