حرام خور
اِبنِ مُنیب
حرامخور
شہر میں داخل ہو چکا تھا۔
کب اور کیسے ہُوا، اِس بارے میں اتفاق نہیں تھا۔
اتفاق اِس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی اصل شکل
و ہیئت کیا ہے۔
کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح
خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق ہو گئے اور تفتیشی ٹیم نے
بتایا کہ حرامخور نے دوا میں ملاوٹ کر دی تھی۔
اِس کے بعد کے پے در پے واقعات نے لوگوں کو
حرامخور کی شہر میں موجودگی کا مکمل یقین دلا دیا۔
چند ہی روز میں شہر کا نیا پُل زمین پر آ گرا۔ کسی
نے کہا کہ حرامخور نے سیمنٹ میں ملاوٹ کر دی، اور کسی نے کہا کہ اُس نے پُل سے
سریا چوری کر لیا۔ دونوں صورتوں میں سب کو یقین تھا کہ یہ کام حرامخور کا ہی ہے۔
تیسرا بڑا واقعہ تب پیش آیا جب طوفانی بارشوں نے
قریبی علاقوں میں گندم کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ حرامخور نے راتوں رات فلور ملوں
اور دکانوں سے آٹے کی زیادہ تر بوریاں غائب کر دیں۔ جو چند بچیں وہ لوگوں کو بڑی
مشکل سے دگنی تگنی قیمت پر ہاتھ آئیں۔
اِس کے بعد تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ حرامخور شہر
کے چپے چپے میں اپنے آسیبی وجود کے ساتھ سرایت کر گیا۔ تھانوں میں مجرموں کی جگہ
معصوموں کے نام ظاہر ہونے لگے اور بڑے بڑے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور سکولوں میں
افسروں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو حرامخور نے کام سے روک دیا۔
لوگ تنگ آ کر شہر کی جامع مسجد کی جانب دوڑے اور
بحث مباحثہ کرنے لگے۔ ایک انتہائی ضعیف بزرگ بمشکل اٹھے اور اٹھ کر محراب کی دائیں
جانب ٹنگی آیت کی طرف اشارہ کیا
وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُم بَيْنَكُم
بِالْبَاطِل
اشارہ دیکھ کر جن کو بات پہلے سمجھ آئی وہ پہلے
اور جن کو بعد میں سمجھ آئی وہ بعد میں باہر کی جانب دوڑے اور آیت کے بیسیوں چھوٹے
بڑے تعویذ بنوا کر اپنے گھروں دکانوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکا دیے۔ کسی کے ذہن
میں نہ آیا کہ بزرگ کا اشارہ آیت کے پیغام کی طرف تھا۔
"اور
ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ”
٭٭٭
تعویذ
اِبنِ مُنیب
"مولوی
صاحب، کوئی ایسا تعویذ لکھ دیں کہ میرے بچے رات کو بھوک سے رویا نہ کریں۔ ”
مولوی صاحب نے تعویذ لکھ دیا۔
اگلے ہی روز کسی نے پیسوں سے بھرا تھیلا گھر کے
صحن میں پھینکا۔ شوہر نے ایک دُکان کرائے پر لے لی۔ کاروبار میں برکت ہوئی اور
دُکانیں بڑھتی گئیں۔ پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ پرانے صندوق میں ایک دن عورت کی نظر
تعویذ پر پڑی۔
"جانے
مولوی صاحب نے ایسا کیا لکھا تھا؟” تجسس میں اُس نے تعویذ کھول ڈالا۔
"جب
پیسے کی ریل پیل ہو جائے تو سارا تجوری میں چھپانے کی بجائے کُچھ ایسے گھر میں ڈال
دینا جہاں رات کو بچوں کے رونے کی آواز آتی ہو”
عورت نے تجوری کھولی اور کُچھ سوچنے لگی۔
تعویذ اُس کے ہاتھ میں تھا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment